متبرکہ میں جن کے فضائل نصوص قرآنیہ واحادیث۱؎ نبویہ واقوال مصطفویہﷺ سے ظاہر وباہر ہیں۔ پہنچ کر اپنی مہدویت اور عیسائیت کا اظہار کیجئے اور چونکہ آپ اور آپ کے حواریین بقول آپ کے مستجاب الدعوات واہل حق ہیں۔ لہٰذا دعاؤں کی بوچھاڑ لگائیے۔ پھر دیکھئے کیا گل کھلتا ہے۔ اگر وہاں کے علماء ودیگر حضرات آپ کے مطیع فرمان ہوگئے تو البتہ یہ آپ کی سچائی کی بڑی علامت ہے۔ پھر بکثرت علماء واہل اسلام آپ کے مطیع ہو جائیں گے۔ اگر وہاں آپ کا جھنڈا گڑ گیا تو کل جہاں آپ کا تابع فرمان ہو جاتا ہے۔ کیونکہ دین محمدیﷺ وہیں سے نکلا ہے اور آخر وہیں سمٹ کر جائے گا۔
ناظرین! خوب یاد رکھیں کہ مرزاقادیانی جانتے ہیں کہ حرمین شریفین میں ان کی خوب آؤ بھگت ہوگی اور وہاں اچھی طرح تواضع ہوگی۔ وہاں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ اتنی مدت کی کی کرائی محنت اکارت جائے گی۔ وہ ہرگز نہ جائیں گے۔ بھولے سے بھی اس طرف رخ نہ کریں گے اور ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ دجال مکہ معظمہ ومدینہ طیبہ میں نہیں جاسکتا۔ جیسا کہ احادیث نبویہ سے بھی ظاہر ہے۔
۱؎ ’’وعن ابی ہریرۃؓ مرفوعاً یوشک ان یضرب الناس اکباد الابل یطلبون العلم فلا یجدون احدًا اعلم من عالم المدینۃ (رواہ الترمذی ج۲ ص۹۷، باب ماجاء فی عالم المدینۃ)‘‘ یعنی عنقریب لوگ سفر کر کے طلب علم کریں گے۔ پس کسی کو عالم مدینہ سے بڑھ کر زیادہ عالم نہ پائیں گے۔ ’’وعن ابی ہریرۃؓ مرفوعاً ان الایمان لیأ رزالی المدینۃ کما تارز الحیۃ الیٰ جحرھا (رواہ البخاری ج۱ ص۲۵۲، باب الایمان یارزالی المدینۃ)‘‘ یعنی ضرور ہے کہ ایمان مدینہ کے جانب سمٹ کر جائے گا۔ جیسا کہ سمٹتا ہے سانپ اپنی بل کی طرف۔
’’وعن انسؓ مرفوعاً لیس عن بلد الا سیطأہ الدجال الامکۃ والمدینۃ لیس نقب عن انقابہا الا علیہ الملائکۃ صافین یحد سونہا (رواہ الشیخان، مسلم ج۲ ص۴۰۵، باب فی بقیۃ من احادیث الدجال)‘‘ یعنی کوئی ایسا شہر نہیں کہ جس میں دجال نہ جائے۔ مگر مکہ ومدینہ کہ ان کے راستوں پر فرشتے صف بستہ ہوںگے اور ان کی حفاظت کریں گے۔