نہیں کہ مرزاقادیانی کا سکوت کرنا اس بناء پر ہو کہ ان کے حواریین مباہلہ کے لئے آمادہ ہوں اور خود بدولت قادیان میں گلچہرے اڑائیں۔
یہ بیچارے پریشان ہوں اور وہ مزے لوٹیں اور خوشی سے بغلیں بجائیں۔ واہ واہ خوب ٹھہری کہ یا رسستے چھوٹے۔ اپنی بلامریدوں نے مول لی۔ لیکن یہ نہ سمجھے کہ حیدرآبادی حواریین نے تو ایک نرالی سج دھج نکالی ہے۔ مرزاقادیانی کو ان کی آن بان کے قربان جانا چاہئے کہ ان کی جان کے بدلے اپنی جانوں کو کھپانے اور قربان کرنے کے لئے بظاہر موجود نظر آتے ہیں۔ مگر حقیقت میں انہوں نے وہ چال چلی ہے کہ اپنی بلا مرزاقادیانی ہی کے سر ڈالی ہے۔ چنانچہ (حجۃ اﷲ ص۳،۴) میں مباہلہ کا یہ طریقہ بتایا ہے کہ اگر مرزاقادیانی کاذب ہوں تو ہلاک ہو جائیں، اور بصورت صادق ہونے کے شخص مقابل فنا ہو جائے۔ غرض یہ کہ حواریین دونوں صورتوں میں ہر آفت سے بچے رہیں۔ سبحان اﷲ! امتی ہوں تو ایسے ہوں۔ چیلے ہوں تو ایسے ہوں۔ دیکھئے ہم پھر کہے دیتے ہیں کہ مرزاقادیانی کا بذات خود آنا مباہلہ کے لئے ضرور۱؎ ہے۔ اس کے بغیر ہم کسی کی نہ سنیں گے۔ اب اور لیجئے اگر مرزاقادیانی مباہلہ سے بالکل منہ چھپاتے ہیں تو اس سے زیادہ آسان کام ہم ان کو اور بتلاتے اور ان کو ایک دوستانہ مشورہ دیتے ہیں۔ جس کے کرنے سے احقاق حق اور ابطال باطل بخوبی ہو جائے اور مرزاقادیانی کے طریقہ کی شہرت علے وجہ الکمال تمام دنیا میں مچ جائے۔ وہ یہ کہ اب آپ ماشاء اﷲ مالدار بھی ہوگئے ہیں۔ حج بیت اﷲ آپ پر فرض ہوگیا ہے۔ ذرا مہربانی فرما کر اپنے عنان کو مکہ معظمہ ومدینہ منورہ زادہما اﷲ شرفاً وکرامۃ کی جانب پھر ائیے اور وہاں جاکر حج وزیارت بھی کیجئے اور اپنی دعوت بھی پھیلائیے ؎
چہ خوش بود کہ برآید بیک کرشمہ سہ کار
صرف قادیان میں شور کرنے اور کلہیا میں گڑ پھوڑنے سے کیا ہوتا ہے۔ ان مقامات
۱؎ کیونکہ مباہلہ مفاعلہ ہے۔ جو اشتراک کے لئے ہے اور قرآن وحدیث سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ فریقین کو ایک دوسرے کی حضوری میں دعا کرنا چاہئے نہ کہ ایک حاضر ہو اور دوسرا غائب۔