تھا کہ اس سے دعا میں جلد اثر ہو اور فیصلہ میں دیر نہ ہو اور اس مقدس جناب (جس کی شان انی ابیت یطعمنی ربی ویسقینی ہے۔ بخاری ج۲ ص۱۰۱۲، باب کم التعزیر والادب) کی متابعت سے ایک خاص اثر پیدا ہو اور مرزاقادیانی کی روحی قوت کا حال اور ان کا مؤید من اﷲ ہونا ظاہر۱؎ ہو۔ اس کو اصل مباہلہ کی قید لازمہ سمجھنا قادیانیوں کی جہالت کی نشانی ہے۔ اچھا صاحب ترک غذا یا قلت غذا جانے دیجئے۔ خوب پلاؤ قورمے کھائیے مرغ پلاؤ اڑائیے۔ مگر پہلے اپنے مصنوعی پیغمبر کو تو بلائیے۔ بغیر ان کے بلائے صرف زبانی جمع خرچ اور فضول باتوں سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ چند مہملات وخرافات کو جمع کر کے کسی کا نام انوار اﷲ کسی کا نام حجۃ اﷲ، کسی کا نام نظر سرسری رکھنا کیا فائدہ ہے۔ خوب یاد رکھو کہ اس سے کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوگا۔ ہزار زبان درازیاں کرو۔ ہمارا کچھ نہ بگڑے گا۔ ان امور واہیہ سے عند العقلاء بجز حماقت وجہالت کے کوئی عمدہ ثمرہ مرتب نہ ہوگا۔ عجب
۱؎ الحمدﷲ! حق بات صاف طور سے ظاہر ہوگئی۔ مرزائی چلاّ اٹھے کہ ترک غذا بدعت ہے اور انوار اﷲ کے ص۳۲۵ پر لکھا کہ: ’’یونس نبی دو چار دن کے بھو کے رہنے کے سبب سے ان کی کیا حالت ہوگئی تھی۔ قریب مرگ ہوگئے تھے۔‘‘ افسوس کہ جب اس خرق عادت کی خود میں قوت نہ پائی تو انبیاء کرام علیہم السلام کو بھی اپنا ہم رنگ بنایا۔ کاش مقابلہ کر کے غلامان انبیاء علیہم السلام کی قوت کو دیکھ لیا ہوتا اور خود خس کم جہاں پاک کے مصداق ہو جاتے۔ قوت القلوب اور ’’احیاء العلوم‘‘ وغیرہ میں موجود ہے کہ صمدانی چالیس دن میں ایک مرتبہ کھاتا ہے۔ مرزاقادیانی اگر خود ترک غذا سے خوف جان کرتے ہیں تو اچھا ہمارے ہی حضرات سے یہ خرق عادت دیکھ کر اپنے عقائد سے توبہ کریں اور سمجھ جائیں کہ میری قرآن فہمی میں پرلے درجہ کا نقصان ہے اور انبیاء کرام علیہم السلام پر اس طرح کا عیب لگا کر اپنا ایمان برباد کرنا مجھے ہرگز ہر گز زیبا نہیں۔
کارپا کان را قیاس از خودمگیر
گرچہ باشد در نوشتن شیرو شیر
لیکن مرزاقادیانی اور ان کے حواریین کو صرف زبانی جمع خرچ سے کام لینا خوب یاد ہے۔ خود مرزاقادیانی حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑویؒ کے مقابلہ کے لئے تاریخ مقرر کر کے لاہور میں نہ آئے اور بے محل آیت ’’ولا تلقوا بایدیکم الیٰ التہلکۃ‘‘ پڑھ کر جان بچالی۔ اسی طرح یہاں کے حواریوں نے بھی اس مقابلہ میں یہ آیت پڑھ دی۔