اسلام میں تفرقہ پیدا کرے، اور فساد برپا کرے اور اپنا ایک نیا فرقہ بنائے۔ اسی سے ہم کو مقابلہ ومباہلہ کرنا چاہئے۔ تاکہ احقاق حق اسی شخص مدعی کے مقابل میں ہو اور اس مدعی باطل پر اس کے باطل دعوؤں کا اثر علیٰ رؤس الاشہاد نمودار ہو کر اس کے مٹنے سے ایک جہاں کا شروفساد مٹ جائے، اور اہل اسلام اس فساد وتفرقہ سے محفوظ رہیں اور اپنے دین وایمان کو ہر طرح کی نئی باتوں سے مامون رکھیں۔ مرزاقادیانی کے حواریین (حیدرآباد کے قادیانیوں) کو چاہئے کہ اگر ان کو دعا کرنے اور میدان میں آنے کا شوق ہے تو بسم اﷲ ۔ کیا دیر ہے۔ اپنے مصنوعی پیغمبر، اپنے فرضی امام، اپنے پیشرو (مرزاقادیانی) کو بلا کر آگے کھڑا کریں، اور یہ سب اتباع ان کے امتی پیچھے کھڑے ہو کر آمین آمین پکاریں، اور جہاں تک ہو سکے دعاؤں کا زور لگائیں، اور بہ آہ وزاری خوب گڑگڑا کر پورے ارمان مٹائیں، اور اس میں کسی طرح کا دقیقہ باقی نہ رکھیں۔ تاکہ اس طرف سے بھی ہم اہل سنت محمد رسول اﷲﷺ روحی فداہﷺ کی امت اپنے یہاں کے مقتداء سادات وعلماء کرام کثرہم اﷲتعالیٰ ونصرہم کے ساتھ ساتھ بالحاح تمام وبہ آہ وزاری اس رب العزت ذوالقہر والجلال کی بارگاہ میں عرض کریں کہ الٰہی، اس جھوٹے پیغمبر، جھوٹے مسیح، مصنوعی مہدی پر پھٹکار اور اپنا غضب نازل فرما! اور احقاق حق وابطال باطل سے اپنے پاک حبیب محمد رسول اﷲﷺ کے دین متین اور ان کی امت خیرالامم کی حفاظت فرما، اور جھوٹے کو سچے سے ظاہر کر۔ پھر دیکھئے کہ مرزاقادیانی اور ان کو مثیل مسیح ماننے والے اور ان کو ’’امام برحق ومہدی موعود‘‘ جاننے والے اور شب وروز ان پر درود پڑھنے والے، ان کی تصویر کی پرستش کرنے والے، دین اسلام میں فساد وتفرق ڈالنے والے نئی نئی باتوں سے قرآن وحدیث کی تاویل کرنے والے، اسلامی علماء سلف وخلف کے مخالف طریقے نکالنے والے۔ مسلمانوں کو کافر جاننے والے ان کے پیچھے نماز پڑھنے کو حرام ماننے والے غالب آتے ہیں؟ یا نبی برحق حبیب مطلق محمد رسول اﷲﷺ اور ان کی ذریت وامت اور اس کے علماء ومقتدا بازی لے جاتے ہیں۔ ہم خدائے تعالیٰ سے جس نے اپنے حبیب پاکﷺ کے دین متین کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔ ضرور یہ امید قوی رکھتے ہیں کہ اس صورت میں فوراً حق کو حق اور باطل کو باطل کر دکھلائے گا اور علے العموم دنیا کے پردے سے یہ فساد یہ تفرق مٹ جائے گا۔ بہرحال ہم اس مسنون مباہلہ کے لئے بشرطیکہ مرزاقادیانی بذات خود آئیں۔ اب بھی موجود ہیں رہا یہ کہ ترک غذا کی قید جو ہمارے پہلے خط میں لگائی گئی تھی۔ اس سے صرف یہی مقصود