رسالہ ’’حجۃ الجبار‘‘ بنام معتمد مجلس قادیانی۔ خاص قادیان ہی کو روانہ کیا تھا کہ بعونہ تعالیٰ ہم سب اہل سنت بنظر احقاق حق مباہلہ کے لئے تیار ہیں اور اس کے جواب کا انتظار فلاں تاریخ تک رہے گا۔ پھر کیا تھا۔ رجسٹری کیا پہنچی کہ ایک آفت پہنچی۔ صدائے برنخواست کا مضمون پورا ہوگیا۔
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خون نہ نکلا
بہرحال ان کے اس سکوت سے یہ نتیجہ تو ضرور برآمد ہوا کہ مرزاقادیانی اپنے دعوے میں سراسر کاذب ہے۔ پہلے تو خود ہی نے مباہلہ کا دعویٰ کیا۔ پھر جب مقابل تیار ہوا تو گریز کر کے سکوت اختیار کیا۔ ماشاء اﷲ چشم بددور۔ حکم، مؤید من اﷲ، مسیح موعود، مہدی، امام الزمان کی یہی شان ہے۔ ادھر تو سرگروہ نے سکوت اختیار کر کے دبکی ماری۔ ادھر حیدرآباد کے قادیانیوں کو پانچ سال کے بعد غیرت دامنگیر حال ہوئی۔ لکھنے لگے کہ وہ رجسٹری خط چھپواؤ۔ ہم بھی تو دیکھیں کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ پس اس احقر نے اظہار حق کے لئے اس خط کو چھپوا دیا۔ جس کا نام ’’حجۃ الجبار‘‘ ہے۔ تاکہ علیٰ العموم مرزاقادیانی کی پہلو تہی اور مباہلہ سے پسپائی واضح ہو جائے۔ کیا دلیری اسی کا نام ہے اور کیا مؤید من اﷲ کا یہی کام ہے کہ پہلے تو خود ہی مباہلہ کی خواہش کریں اور پھر بوقت مقابلہ منہ چھپائیں۔ واہ صاحب اسی برتے پر مباہلہ کا دعوی، پھر منہ اور یہ گرم مصالحہ۔ لاحول ولا قوۃ الا باﷲ!
اگر سچے ہو تو جو کہے وہ کر دکھائے۔ خدا کے لئے مرد میدان بنئے۔ ورنہ ایسی فضول باتوں اور جھوٹے دعوؤں سے توبہ کیجئے کہ ابھی باب توبہ باز ہے۔ اب آپ ہی سچ فرمائے کہ مقابلہ سے صریح پہلو تہی اور خاموشی اختیار کرنے والا کیوں نہ اپنے دعوے میں کاذب ومفتری سمجھا جائے۔ کون ذی فہم ہوگا کہ ایسے شخص کو سچا مسیح ومہدی تصور کرے۔ مرزاقادیانی کے جھوٹے دعوؤں کے متعلق ’’ازالہ اوہام‘‘، ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ وغیرہ کتب میں جو کچھ تحریری دلائل لکھے تھے ان تمام ڈھکوسلوں اور فضول باتوں کا جواب تو وقت بوقت علماء اہل سنت نے دے دیا اور مثل ہباء منثوراً کے اڑا دیا ہے۔ جیسا کہ ان تمام کتابوں سے جوان کے رد میں لکھی گئیں اور شائع ہو چکی ہیں ظاہر وباہر ہے۔ رہا سہا دعوئے مباہلہ جس کو آخر معاملہ کہنا چاہئے۔ اس میں بھی ان کی ترقی تمام ہوگئی اور بعونہ تعالیٰ ان کی اس خاموشی سے ایسی زک نصیب ہوئی۔ جو ایک دنیا پر کالشمس فی