بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
الحمدﷲ رب العلمین والصلوٰۃ والسلام علیٰ سید المرسلین وعلیٰ الہ واصحابہ الطیبین الطّاہرین۰ اما بعد!
بندۂ امیدوار رحمت غفار، سید محمد عبدالجبار کان اﷲ لہ بخدمت اہل اسلام مدعا نگار ہے کہ ان دنوں ایک پرچہ موسوم ’’حجۃ اﷲ‘‘ شائع ہوا ہے۔ وہ ہرگز اس قابل نہیں ہے کہ اس کے جواب کی طرف کوئی اہل علم متوجہ ہو۔ اگر کوئی اہل انصاف ’’حجۃ الجبار‘‘ کو بغور ملاحظہ فرمائے اور من بعد حجۃ اﷲ کو دیکھے تو صاف صاف کہہ دے گا کہ ’’سوال از آسمان وجواب از ریسمان‘‘ پھر اس پر طرہ یہ کہ محض بیہودگیوں اور فضول باتوں کا طومار ہے۔ ان قادیانیوں نے ایک چمکتی ہوئی روشنی پر خاک ڈالی ہے اور ہدایت کے ایک منور آفتاب پر دھول اڑائی ہے۔ مگر وہ یاد رکھیں کہ ان چالاکیوں اور فضول باتوں سے کیا وہ حق کی روشنی کہیں بجھ سکتی ہے۔ نہیں ہرگز نہیں۔ وہ خاک انہی کے منہ پر لوٹ پڑے گی اور وہ حق کا آفتاب قیامت تک چمکتا رہے گا۔ ’’واﷲ متم نورہ ولو کرہ الکافرون‘‘ لہٰذا اکثر احباب کی یہ رائے تھی کہ اس کا جواب لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مگر راقم الحروف ودیگر بعض اصحاب کی یہ رائے ہوئی کہ ایک مرتبہ اور اصل امر کی اطلاع عوام کو کر دینی چاہئے اور ان قادیانیوں کی ابلہ فریبیوں اور چالاکیوں سے اہل اسلام کو آگاہ کرنا چاہئے۔تاکہ کوئی مسلمان ان کے دام تزویر میں نہ آئے اور اس فتنۂ آخرالزمان سے بچے۔ اس کے بعد پھر اگر وہ لوگ یا وہ گوئی کریں گے اور اپنے نامۂ اعمال کی طرح کاغذات کو بھی سیاہ کیا کریں گے تو ہمیں ان سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
ناظرین! بغور ملاحظہ فرمائیں کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے نہ صرف ایک اشتہار بلکہ کئی اشتہاروں اور متعدد کتابوں میں یہ تحریر کی ہے کہ میں ’’مثیل مسیح موعود‘‘ ہوں اور مہدی بھی ہوں اور علماء ومشائخین سے جو صاحب مجھے مباہلہ۱؎ کرنا چاہیں میں تیار ہوں۔ اسی بناء پر اس فقیر سراپا تقصیر نے حسب الحکم حضرات علماء حیدرآباد دکن صانہا اﷲ عن الشر والفتن۔ ایک رجسٹری خط مندرجہ
۱؎ دیکھو (آئینہ کمالات اسلام ص۳۳۱، خزائن ج۵ ص ایضاً) جس کی یہ عبارت ہے۔ ’’مباہلہ کی نسبت خود بخود اﷲ جل شانہ نے اجازت دے دی۔ اوّل حال میں مباہلہ ناجائز تھا۔‘‘ سبحان اﷲ! مرزاقادیانی جائز کو ناجائز اور ناجائز کو جائز بھی کرتے ہیں۔ تحلیل وتحریم پر بھی ان کا قبضہ ہے۔