مگر مرزائی حضرات ان ہرسہ امور سے کورے ہوتے ہیں۔ اپنا دعویٰ نہ بیان حکمت سے ثابت کر سکتے ہیں۔ کیونکہ مبنی برحقائق نہیں۔ اختراع اور کذب ہے۔ مکر اور فریب ہے۔ دجل اور جدل ہے۔ اسی لئے ان سے علماء ختم ہوتے جارہے ہیں۔ صرف کالج اور تعلیم دنیاوی پر گذارہ ہے۔ مرزائیت کی ترقی اور استقامت کا دارومدار صرف اچھی ملازمت دلانے اور اچھے خاندان میں شادی کرنے پر منحصر ہوکر رہ گیا ہے۔ علم القرآن پڑھانے سکھلانے کا ربوہ (چناب نگر) میں کوئی اچھا انتظام نہیں۔ ابوالعطاء اﷲ دتا جالندھری کے سوا اب کوئی پرانی قسم کا آدمی نہیں رہ گیا اور قاضی نذیر وغیرہ کی نسبت مبلغ اعظم نے فرمایا۔ وہ تو عربی کی عبارت بھی مناظرہ عالم گڑھ میں غلط پڑھتے دیکھے گئے ہیں۔ وہاں فیصلہ ان کے خلاف ہوگیا۔ وہ لڑکا جس کے لئے مناظرہ ہوا، مرزائی نہیں رہا۔ چنانچہ تحریری فیصلہ ان کے خلاف موجود ہے۔
یہ وجہ ہے علم الحقائق میں رہ کر بات نہ کرنے کی۔
حقائق وحکمت موعظہ حسنہ سے کام لے نہیں سکتے۔ کیونکہ قصص انبیاء اور آل انبیاء ان کی تصدیق نہیں کرتے۔ اقتداء بانبیاء نہیں کر سکتے۔ ملت ابراہیم آل ابراہیم مثال موسوی تشبیہ ہارونی سب ان کے خلاف ہی رہا۔ جدل تو وہ بھی غیراحسن یعنی بغیر علم ہدایت اور کتاب روشن کرتے ہیں۔ ورنہ ایک مرزائی کا مناظرہ ایک شیعہ عالم سے یہ ہوتا ہے کہ نہ اپنی نبوت کا دعویٰ مبنی برصداقت ثابت کر سکے۔ بنات الرسول کی تعداد کا مسئلہ جس کا نہ مرزائی اصول سے تعلق نہ شیعہ اصول سے اور اس میں بھی جناب فاطمہ کی شہرت تواتر عصمت طہارت میں غیر کو شریک نہ کر سکے اور تعدد میں آیت محکم اور حدیث متواتر ومشہور نہ پیش کر سکے۔ صرف رطب ویا بس قیاس مع الفارق… حالانکہ جدل احسن کی تعریف یہ ہے۔ ’’ان یکون دلیلاً مرکباً من مقدمات مشہورۃ عند الجمہور اومن مقدمات مسلمۃ عند الحضم ذالک القائل وہذ الجدل ہو الجدل الواقع علی الوجہ الاحسن‘‘ کہ مجادلہ احسن وہ ہوتا ہے کہ دلیل ایسے مقدمات سے مرکب ہو کہ مشہور عند الجمہور اور مسلم ہوں یا کم ازکم ایسے مقدمات سے دلیل مرکب ہو جو عند الحضم مسلم ہوں۔ ورنہ مجادلہ احسن نہ ہوگا۔ بلکہ غیراحسن ہوگا اور دلیل مقدمات باطلہ سے مرکب ہوگی۔ ایسے مناظر کا کام صرف جھوٹے اور باطل مقدمات کی ترویج ہوتا ہے۔ سامعین کو بے وقوف بنانا، حیلے بہانے سے کام لینا دوران مناظرہ میں طرق فاسدہ یعنی فاسد