انفرادیت ادارہ کا جزو بن جاتی ہے۔ ایسی صورت میں اس کے انفرادی اختیارات وحقوق ادارہ کے حقوق واختیارات میں مدغم ہو جاتے ہیں۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ مہذب معاشرہ میں ڈاکٹر مدارس کے معلمین، محتاجین کے اداروں اور یتم خانوں کے کارکنان۔ غرضیکہ ہر اس قسم کے اہل کارانہ پر سرکاری قوانین کے علاوہ اخلاقیات اور نیک چلنی کے قواعد کی پابندی بھی عائد ہو جاتی ہے۔ باوجود اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے معاشرے میں مذہبی ڈھونگئے اور جعل ساز اخلاقی قواعد کی پابندی سے آزاد رہتے ہوئے سادہ لوح اور کم عقل لوگوں کو دھوکہ دیتے رہتے ہیں۔ اس قسم کے مذہبی ڈھونگیوں پر اخلاقی پابندیاں اس لئے عائد کرنا مشکل ہوتی ہیں کہ دنیوی حکومتیں مذہبی معاملات میں دخل دینا پسند نہیں کرتیں۔ وہ اسی میں عافیت سمجھتی ہیں کہ اخلاقی نظم ونسق کی پابندی مذہبی اداروں پرہی چھوڑ دو۔ اس طرح مذہبی اداروں پر تنقیدی نظر رکھنا معاشرے کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔
۷… ان کریہہ باتوں کے بیان کرنے کی دوسری وجہ معقول یہ ہے کہ قادیانی جماعت کے سرکردہ گروہ نے جو جنسی اور اخلاقی قواعد کی خلاف ورزی شروع کی ہوئی ہے۔ وہ انفرادی یا شخصی حیثیت سے نہیں کی جارہی۔ بلکہ ان بداعمالیوں کو ایک جتھہ بندی اور تنظیم کا روپ دے دیا گیا ہے اور طرہ یہ کہ یہ سب کچھ اسلام کے نام پر کیا جارہا ہے۔ اگر یہ لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہنا چھوڑ کر ایک نئے مذہب کا اعلان کر دیں اور اپنی جماعت کا نام احمدی کی بجائے کوئی بھی اور غیرمسلم نام رکھ لیں تو مسلمان ان سے مذہبی معاملات میں الجھنا بند کر دیں گے۔
۸… میرے الزامات جماعت قادیان کے خلاف نہیں۔ اس جماعت میں بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو دیانت داری اور اخلاص سے قادیانی عقائد پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ عقائد غلط اور غیراسلامی ہیں۔ ہم مذہبی عقائد میں اختلافات کی بناء پر کسی سے مارپیٹ نہیں شروع کر دیتے۔ لیکن جب کوئی منظم گروہ مذہب وعقائد کے روپ میں معاشرہ کے طریقہ ماندوبود میں تخریب پیدا کرنا شروع کر دے تب ہی عوام الناس اس تخریب کی روک تھام کے لئے استادہ ہوتے ہیں۔ اگر بنی نوع انسان میں اس قسم کے ناخلف اور بے غیرت لوگ موجود ہیں جو اپنی محرم بہو بیٹیوں کی آبرو اور عصمت کو اپنے بدچلن پیروں کی پر جوش عقیدت پر قربان کر دینے کے لئے تیار ہیں تو ایسے بھڑوں کو کون بچا سکتا ہے۔ بحث