بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
جناب مرزاطاہر احمد، امیر جماعت احمدیہ، لندن
۱… آپ کے سیکرٹری مسٹر رشید احمد چوہدری نے مجھے ایک رجسٹری خط بھیجا ہے۔ جس میں آپ کی طرف سے مبارزت طلبی کی ہے کہ میں آپ کے اس مباہلہ کے چیلنج کو قبول کروں جو آپ نے معاندین احمدیت کو بروز ۱۰؍جون ۱۹۸۸ء کو دیا تھا۔ یہ خط جس پر کوئی تاریخ نہیں لکھی ہوئی اور اس کے ساتھ آپ کے چیلنج کا ایک نسخہ مجھے مورخہ ۵؍اگست ۱۹۸۸ء کو ملا۔
۲… مجھے آپ کے اس چیلنج کو قبول کرنے میں اس لئے بہت خوشی ہورہی ہے کہ قادیانیت کے فریب کو بے نقاب کرنے کا موقع ملے گا۔
۳… مباہلہ دعا کے ذریعہ سے ایک آزمائش ہوتی ہے۔ جس میں دو فریق اﷲتعالیٰ سے التجاء کرتے ہیں کہ کسی متنازعہ فیہ مسئلہ سے متعلق جھوٹ اور سچ میں تمیز کردے۔ چونکہ مباہلہ ایک نہایت ہی سنجیدہ اور اہم امر ہے۔ اس لئے مناسب ہوگا کہ ہم دونوں اس کی تفاصیل براہ راست آپس میں طے کریں۔ بجائے اس کے کہ اپنے سیکرٹریوں کے ذریعہ گفت وشنید کریں۔ تاکہ مباہلہ کے آخری فیصلہ میں کسی قسم کے شک وشبہ اور ابہام کی گنجائش نہ رہ جائے۔
۴… آپ نے اپنے چیلنج کے ص۴ پر اس بات کی اجازت دی ہے کہ ان لوگوں کو جو آپ کے چیلنج کو قبول کر لیں۔ یہ اختیار ہوگا کہ چیلنج کی جس دفعہ کو وہ چاہیں مستثنیٰ کر لیں۔ اس لئے میں اس دفعہ کو قبول کرتا ہوں۔ جو آپ نے صفحہ دو پر مندرجہ ذیل عبارت میں لکھی ہے۔
’’دوسرا پہلو (اس مباہلہ کا) جماعت پر سراسر جھوٹے الزامات لگانے اور اس کے خلاف شرانگیز پراپیگنڈہ کرنے سے تعلق رکھتا ہے۔‘‘
۵… چونکہ میرے الزامات اخلاقی خباثت اور جنسی گناہ ہائے کبیرہ کو فاش کرنے سے متعلق ہیں۔ جن میں اس قسم کی کریہہ باتیں بھی کہنا پڑیں گی۔ جن کا ذکر عام طور پر شریف معاشرے میں نہیں کیا جاتا۔ اس لئے اس کی توضیح کر دینا ضروری ہے کہ کن وجوہات کی بناء پر میں اس قسم کی شرمناک باتوں کو قلم بند کرنا محض بجا ہی نہیں بلکہ اپنا اخلاقی فرض سمجھتا ہوں۔
۶… عام طور پر کسی ایک فرد کو یہ حق نہیں ہوتا کہ دوسرے فرد پر ناقد بن کر بیٹھ جائے۔ لیکن جب کوئی شخص کسی اعتمادی اور اخلاقی ذمہ داری کے عہدہ پر فائز ہوتا ہے تو اس کی