پاؤں تک نہ رکھا۔ بہ امر مجبوری پیر صاحب گولڑہ واپس چلے گئے۔ اس مقابلہ کی نوعیت یہ تھی کہ فریقین سات گھنٹے تک زانو بہ زانو بیٹھ کر چالیس آیات قرآنی کی تفسیر عربی میں لکھیں جو بہ تقطیع کلان بیس ورق سے کم نہ ہو۔ جس کی تفسیر عمدہ ہوگی وہ مؤید من اﷲ سمجھا جائے گا۔
امریکہ کے مشہور ڈاکٹر ڈوئی نے بھی مرزاقادیانی کی طرح دعویٰ نبوت کیا۔ لیکن مرزاقادیانی کو یہ امر کب گوارا تھا۔ چنانچہ مرزاقادیانی نے امریکہ کی اخبارات میں دو تین مضامین چھپوائے کہ ڈاکٹر ڈوئی مجھ کو اپنے ذہن میں رکھ کر یہ دعا کرے کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مر جائے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے نہ کوئی مضمون جواب میں اخبارات میں طبع کرایا اور نہ کوئی جواب بصورت کتاب دیا۔ لیکن جب قضا الٰہی سے وہ مر گیا تو مرزاقادیانی نے یہ بڑ ہانک دی کہ وہ میری بددعا سے ہلاک کر دیا گیا ہے۔
الحکم مورخہ ۱۷؍مارچ ۱۹۰۷ء میں ہے کہ حضرت مسیح (مرزاقادیانی) کا صدق کھل گیا اور کذاب اور مفتری ڈوئی مرگیا۔
مرزاقادیانی نے رسالہ ریویو بابت ماہ ستمبر ۱۹۰۲ء ص۳۴۴ اپنی عادت مستمرہ کے مطابق بہت طول طویل مضمون لکھا ہے۔ جس کا اختصار یہ ہے کہ ڈوئی صاحب بار بار تمام مسلمانوں کو موت کی پیشین گوئی نہ سنائیں۔ بلکہ ان میں سے صرف مجھے اپنے ذہن کے آگے رکھ کر یہ یہ دعا کر دیں کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے وہ پہلے مر جائے۔
پھر رسالہ ریویو بابت اپریل ۱۹۰۷ء ص۱۴۲ پر لکھتا ہے کہ باوجود کثرت اشاعت پیشین گوئی کے ڈوئی نے اس چیلنج کا کوئی جواب نہ دیا اور نہ ہی اپنے اخبار نیوز آف ہیلنگ میں اس کا کچھ ذکر کیا۔
(براہین احمدیہ ص۵۵۶، خزائن ج۱ ص۶۶۴) پر ہے کہ: ’’مرزاقادیانی نے انگریزی اور عبرانی اور عربی زبان میں الہامات درج کئے ہیں اور کہتا ہے کہ ان میں سے بعض کے معنی مجھے معلوم نہیں ہوئے۔‘‘
ناظرین! اب تک تمام انبیاء پر الہامات ان کی اپنی زبان میں نازل ہوتے رہے۔ تاکہ وہ ان کو کما حقہ سمجھ کر تبلیغ کا حق ادا کر سکیں۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت عبرانی میں اور حضرت داؤد علیہ السلام پر زبور سریانی میں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر انجیل یونانی میں اور آنحضرتﷺ پر قرآن عربی زبان میں نازل ہوا۔ مگر مرزاقادیانی پر بے معنی الہامات کا نزول