(اشتہار انعامی تین ہزار حاشیہ ، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۶۹، اشتہار نمبر۹) پر ہے کہ: ’’بعض مخالف مولوی اور نام کے مسلمان اور ان کے چیلے کہتے ہیں کہ جب کہ ایک مرتبہ عیسائیوں کی فتح ہو چکی تو پھر باربار آتھم صاحب کے مقابلہ پر آنا انصافاً واجب نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اے بے ایمانو! نیم عیسائیو، دجال کے ہمراہیو! اسلام کے دشمنو! کیا پیشین گوئی کے دو پہلو نہیں تھے۔ پھر کیا آتھم صاحب نے رجوع الیٰ الحق کے احتمال کو اپنے اقوال اور افعال سے آپ قوی نہیں کیا۔ کیا وہ ڈرتے نہیں رہے کیا انہوں نے اپنی زبان سے نکلنے کا اقرار نہیں کیا۔
جب مرزاقادیانی نے آتھم کو قسم کھانے پر مجبور کیا کہ آیا تم دل میں مجھ پر ایمان نہیں لائے ہو تو آتھم نے یہ جواب دیا جو نور افشاں ۱۵؍اکتوبر ۱۸۹۴ء میں درج ہے کہ اگر مجھے بھی تم حلف کرانا چاہو تو عدالت میں طلب کرو۔ عدالت کے جبر سے میں بھی قسم کھا لوں گا۔‘‘ (انوار الاسلام ص۵، خزائن ج۹ ص۵) پر ہے کہ: ’’توجہ سے یاد رکھنا چاہئے کہ ہاویہ میں گرائے جانے کو جو اصل الفاظ الہام ہیں عبداﷲ آتھم نے اپنے ہاتھ سے پورا کر دیا اور جن مصائب میں اس نے اپنے تئیں ڈال لیا اور جس طرز سے مسلسل گھبراہٹوں کا سلسلہ ان کے دامن گیر ہوگیا اور ہول اور خوف نے اس کے دل کو پکڑ لیا۔ یہی اصل ہاویہ تھا اور سزائے موت اس کے کمال کے لئے ہے۔ جس کا ذکر الہامی عبارت میں موجود بھی نہیں۔ بیشک یہ مصیبت ایک ہاویہ تھا۔ جس کو عبداﷲ آتھم نے اپنی حالت کے موافق بھگت لیا۔‘‘
عالی جناب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ نے جو مرزاقادیانی کے معتقد ہیں۔ قادیان ایک خط بھیجا تھا۔ جس کا خلاصہ یہ ہے۔
بسم اﷲ الرحمن الرحیم! مولانا مکرم سلمکم اﷲ تعالیٰ
السلام علیکم! پیشین گوئی کی میعاد مقررہ ۷؍دسمبر ۱۸۹۴ء تھی۔ گو پیشین گوئی کے الفاظ کچھ ہی ہوں۔ لیکن آپ نے جو الہام کی تشریح کی ہے وہ یہ ہے۔ یعنی اس وقت اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیشین گوئی جھوٹی نکلی۔ یعنی وہ فریق جو خدا کے نزدیک جھوٹ پر ہے۔ ۱۵؍ماہ کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے سزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ہر ایک سزا کے اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔ مجھ کو ذلیل کیا جائے۔ روسیاہ کیا جائے۔ میرے گلے میں رسا ڈالا جائے مجھ کو پھانسی دیا جائے۔ ہر ایک بات کے لئے تیار ہوں۔ میں اﷲ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ ضرور ایسا ہی کرے گا۔ ضرور کرے گا۔ ضرور کرے گا۔ زمین اور آسمان ٹل جائیں پر اس کی باتیں