دربارہ الوہیت عیسیٰ علیہ السلام امرتسر میں ہوا۔ پندرہ روز تک بازار مباحثہ گرم رہا۔پچاس پچاس آدمی فریقین سے بذریعہ ٹکٹ سامعین مناظرہ تھے۔ پھر یہی مناظرہ جنگ مقدس کی صورت میں شائع ہوا ہے۔
(جنگ مقدس ص۲۰۹، خزائن ج۶ ص۲۹۱) پر ہے کہ: ’’آج رات جو مجھ پر کھلا ہے وہ یہ ہے کہ جب میں نے بہت تضرع اور ابتہال سے جناب الٰہی میں دعا کی کہ تو اس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجز بندے ہیں۔ تیرے فیصلہ کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔ تو اس نے مجھے یہ نشان بشارت کے طور پر دیا ہے کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بتا رہا ہے اور انہی دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی پندرہ ماہ تک ہاویہ میں گرایا جائے گا اور اس کو سخت ذلت پہنچے گی۔ بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے اور جو شخص سچ پر ہے اور سچے خدا کو مانتا ہے ۔اس کی اس سے عزت ظاہر ہوگی اور اس وقت جب پیشین گوئی ظہور میں آئے گی۔ بعض اندھے سوجاکھے کئے جائیں گے اور بعض لنگڑے چلنے لگیں گے اور بعض بہرے سننے لگیں گے۔‘‘
(رسالہ کرامات الصادقین اخیر صفحہ، خزائن ج۷ ص۱۶۳) پر ہے کہ: ’’خدا نے آتھم کے مرنے کی مجھے بشارت دی ہے۔‘‘
(تریاق القلوب ص۱۱، خزائن ج۱۵ ص۱۴۸) پر ہے کہ: ’’آتھم کی موت کی پیشین گوئی کی گئی تھی۔ جس میں یہ شرط تھی کہ اگر آتھم پندرہ مہینے کی میعاد میں حق کی طرف رجوع کرلیں گے تو موت سے بچ جائیں گے۔‘‘
(جنگ مقدس ص اخیر۲۱۱، خزائن ج۶ ص۲۹۳) پر ہے کہ: ’’اگر یہ پیشین گوئی جھوٹی نکلے یعنی وہ فریق جو خداتعالیٰ کے نزدیک جھوٹ پر ہے۔ وہ پندرہ ماہ کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے بسزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ہر ایک قسم کی سزا اٹھانے کو تیار ہوں۔ مجھ کو ذلیل کیا جاوے، روسیاہ کیا جاوے۔ میرے گلے میں رساڈالا جاوے۔‘‘
(اشتہار ہزاری دو ہزاری سہ ہزاری چہار ہزاری، انوار الاسلام ص۴، خزائن ج۹ ص۴) پر ہے کہ: ’’کہ آتھم کی موت اس لئے نہیں ہوئی کہ اس نے حق کی طرف رجوع کیا تھا اور حق کی طرف رجوع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آتھم کے دل پر پیشین گوئی نے اثر کیا اور وہ اس پیشین گوئی کی عظمت کی وجہ سے دل میں موت کے غم سے شہر بہ شہر مارا مارا پھرتا رہا۔‘‘