فتوحات اسلامیہ میں بحوالہ (تاریخ کامل ج۹ ص۱۹۵) لکھا ہے کہ: ’’پانچویں صدی کے آغاز میں محمد بن تومرت ساکن جبل سوس نے دعویٰ کیا کہ میں سادات حسینی ہوں اور مہدی موعود ہوں۔ یہ شخص علم رمل ونجوم میں بھی ماہر تھا۔ مریدوں کا لشکر تیار کر کے بادشاہ وقت پر ظفر یاب ہوا۔ اس کی ترقی کا راز یہ تھا کہ اس نے ایک مرید عبداﷲ کو جو عالم وفاضل تھا۔ مصنوعی دیوانہ بنا دیا۔ کچھ عرصہ کے بعد یہ بناوٹی دیوانہ مکلف لباس پہن کر مسجد کے محراب میں کھڑا ہو کر یوں گویا ہوا۔
حاضرین مسجد! فرشتہ نے میرا سینہ شق کر کے اور صاف کر کے قرآن واحادیث وکتب سماوی سے بھر دیا ہے۔ یہ سن کر محمد بن تومرت رونے لگا کہ سبحان اﷲ میرے ایک ادنیٰ مرید کو رسول اﷲؐ کا سا شرف عطا ہوا ہے۔ جب عوام الناس میں عبداﷲ کی صداقت قول کے بارہ میں اختلاف پیدا ہوا تو عبداﷲ نے کہا کہ خدا نے مجھے اہل دوزخ کی شناخت بھی عطاء کی ہے۔ جس کی تصدیق تین فرشتے اپنی زبان سے کریں گے۔ جو فلاں کنوئیں میں موجود ہیں۔ (خفیہ طور پر پہلے ہی سے محمد بن تومرت نے تین مریدوں کو سکھا پڑھا کر اس کنوئیں میں اتار دیا تھا) جب لوگوں کو اژدحام کنوئیں پر موجود ہوگیا تو محمد بن تومرت نے دو رکعت نماز پڑھی اور آواز دی کہ عبداﷲ کہتا ہے کہ خدا نے اس کو اہل دوزخ کی پہچان عطا کی ہے۔ کیا یہ سچ ہے کنوئیں میں سے تین آوازیں بلند ہوئیں۔ سچ ہے، سچ ہے، سچ ہے۔ بعد ازاں محمد بن تومرت نے کہا کہ چونکہ اب یہ کنواں نزول ملائکہ کی وجہ سے مقدس ہوچکا ہے اور اس میں نجاست وغیرہ کے گرنے کا اندیشہ باقی رہے گا۔ اس لئے اس کنوئیں کو مٹی سے پر کر دو۔ پس بچارے تین مریدوں کو بخوف افشائے راز زندہ دفن کر دیا گیا۔
محمد بن تومرت کے بعد عبدالمؤمن اس کا جانشین ہوا اور امیرالمؤمنین کے لقب سے ملقب ہوکر ۳۳سال تک جانشین رہ کر ۵۵۸ھ میں فوت ہوا۔ اس نے اپنی خلافت میں اندلس اور عرب کو فتح کیا۔ ابن خلدون میں ہے کہ طریف ابو صبیح نے دوسری صدی کے آغاز میں سلطنت کی بنیاد ڈالی اور نبوت کا مدعی ہوا۔ پانچویں صدی کے آخر تک اس کی اولاد سلطنت کرتی رہی۔ اس کا ولی عہد صالح بن طریف ۱۲۷ھ میں قرار دیا گیا۔ یہ بھی باپ کی طرح نبوت کا مدعی رہا۔ اس کا قول تھا کہ میں نبی ہوں۔ مہدی اکبر ہوں، عیسیٰ بن مریم میرے وقت میں نازل ہوں گے اور میرے پیچھے نماز پڑھیں گے۔ میں خاتم الانبیاء ہوں۔ مجھے ایک نیا قرآن عطا کیاگیا ہے۔ یہ شخص ۴۷سال تک حکمران رہ کر فوت ہوا۔