نزہت الجلبس بیان ۲۹۳ھ میں لکھا ہے کہ: ’’حنفر بن سباء الاصغر کی اولاد میں سے ایک شخص مسمیٰ علی بن فضل نے دعوے نبوت کیا۔ یہ صفا کا باشندہ تھا۔ اس وقت مکتفی باﷲ بن معتفد باﷲ عباسی کی حکومت تھی۔ اس جعلی نبی کا نقیب پکارا کرتا تھا۔ ’’اشہد ان علے بن فضل رسول اﷲ‘‘ بظاہر مدعی نبوت تھا۔ مگر درپردہ مدعی الوہیت (بعینہ مرزا کی طرح) بھی تھا۔ چنانچہ اس کے خطوط میں یہ لکھا ہوتا۔ زمین کے پھیلانے والے اور ہانکنے والے اور پہاڑوں کو ہلانے والے اور ٹھہرانے والے علی بن فضل کی طرف سے فلاں فلاں بندہ کی طرف یہ مذہب سے خارجی تھا۔‘‘ (جیسا کہ مرزا اور مرزائی ہیں)
(الاستقصاء اخبار دول المغرب الاقصیٰ ج۱ ص۵۱،۱۰۳) پر ہے کہ: ’’صالح بن طریف کاذب جو مدعی نبوت ومہدویت ہوا۔ سنتالیس برس بادشاہ اور نبی بنا رہا۔ وحی کا مدعی ہوا اور ایک قرآن بھی بنایا اور ایک نئی نماز بھی بنائی اور کہا کہ یہ کلام خدا ہے۔ جو بذریعہ وحی مجھ پر نازل ہوا ہے۔ حسن بن صباح پینتیس سال نبی رہا۔ (الکامل فی التاریخ ج۹ ص۲۱۵،۲۱۶) جس کے مریدوں کی تعداد کئی لاکھ تھی۔ مسیلمہ کذاب بھی آنحضرتﷺ کے بعد بھی زندہ رہا اور دعویٰ نبوت پر قائم رہا۔‘‘ (تاریخ ابن خلدون ج۲ ص۴۰۹)
بحوالہ (ملل ونحل ج۱ ص۱۸۱) لکھاگیا ہے کہ: ’’ایک شخص مسمیٰ احمد کیال نبوت کا مدعی ہوا۔‘‘
(سنین اسلام ج۲ ص۱۰۱،۱۰۲) میں ہے کہ: ’’حاکم بامراﷲ نے مصر میں دعویٰ نبوت کیا اور پینسٹھ سال زندہ رہا اور اپنی موت سے مرا۔‘‘
(تذکرۃ المذاہب) میں ہے کہ: ’’ایک شخص مسمی بہبود زنگی مدعی نبوت ہوا اور اس کے مریدوں کی تعداد پانچ کروڑ پانچ لاکھ تھی اور اسے دس سال تک خلیفہ وقت کے خلاف جنگ کیا۔‘‘
(الفرق بین الفرق ص۱۸۶) میں ابومنصور کا حال درج ہے کہ: ’’جو فرقہ منصوریہ کا بانی ہے۔ اس کا قول تھا کہ نبوت کبھی منقطع نہیں ہوتی۔ جنت اور نار دو اشخاص کے نام ہیں۔ میۃ، دم لحم خنزیر وغیرہ۔ چند اشخاص ہیں۔ جن کی محبت حرام کی گئی ہے۔ صوم وصلوٰۃ وحج وزکوٰۃ چند اشخاص ہیں۔ جن کی محبت واجب ہے۔ یہ شخص ستائیس سال تک سلطنت اور نبوت کا مدعی رہ کر ۳۶۸ھ میں ہلاک ہوا۔‘‘