(براہین احمدیہ ص۲۱۴ حاشیہ نمبر۱۱، خزائن ج۱ ص۲۳۷) پر ہے کہ: ’’ہمارے اندر سے وہی خیالات بھلے یا برے جوش مارتے ہیں جو ہمارے اندازہ فطرت کے مطابق ہمارے اندر سمائے ہوئے ہیں۔‘‘
ناظرین! پھر اس پر طرہ یہ ہے کہ (نشان آسمانی ص۲۰، خزائن ج۴ ص۳۸۰) پر مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ: ’’مجھے سخت تعجب ہے کہ ہمارے علماء عیسیٰ کے لفظ پر کیوں چڑتے ہیں۔ اسلام کی کتابوں میں تو ایسی چیزوں کا بھی عیسیٰ نام ہے۔ جو سخت مکروہ ہیں۔ چنانچہ برہان قاطع میں حرف عین میں لکھا ہے کہ عیسیٰ دہقان کنایہ شراب انگوری سے ہے۔ عیسیٰ نوماھ اس خوشہ انگور کا نام ہے جس سے شراب بنایا جاتا ہے اور شراب انگوری کو بھی عیسیٰ نوماھ کہا جاتا ہے۔‘‘
(انجام آتھم ص۶۹، خزائن ج۱۱ ص۶۸) پر ہے کہ: ’’میں کسی خونی مسیح کے آنے کا قائل نہیں ہوں اور نہ ہی خونی مہدی کا منتظر ہوں۔‘‘
فکر ہر کس بقدر ہمت اوست
(اعجاز احمدی ص۳۰، خزائن ج۱۹ ص۱۴۰) پر ہے کہ: ’’جو حدیث ہمارے الہام کے خلاف ہو۔ ہم اسے ردی میں پھینک دیتے ہیں۔‘‘
(دافع الوسواس ص۲۸۸، خزائن ج۵ ص ایضاً) پر ہے کہ: ’’ہمارا صدق یا کذب جانچنے کے لئے ہماری پیشین گوئی سے بڑھ کر کوئی امتحان نہیں ہوسکتا۔‘‘
(حمامتہ البشریٰ ص۱۳، خزائن ج۷ ص۱۹۱) پر ہے کہ: ’’مسیح کی وفات اور عدم نزول اور اپنی مسیحیت کے الہامات کو میں نے دس سال تک ملتوی رکھا بلکہ رد کر دیا۔‘‘
(توضیح المرام ص۳۰) پر ہے کہ: ’’جبرائیل علیہ السلام جس کا سورج سے تعلق ہے۔ وہ بذات خود اور حقیقتاً زمین پر نہیں اترتا ہے۔ اس کا نزول جو شروع میں وارد ہے۔ اس سے اس کی تاثیر کا نزول مراد ہے اور جو صورت جبرائیل علیہ السلام وغیرہ فرشتوں کی انبیاء علیہم السلام دیکھتے تھے۔ وہ جبرائیل وغیرہ کی عکسی تصویر تھی۔ جو انسان کے خیال میں متمثل ہو جاتی تھی۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۸، خزائن ج۳ ص۱۰۶) پر ہے کہ: ’’موسیٰ علیہ السلام کی پیشین گوئیاں بھی اس صورت میں ظہور پذیر نہیں ہوئیں جس صورت پر موسیٰ علیہ السلام نے اپنے دل میں امید باندھی تھی۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۳۵۳، ضمیمہ نبوت فی الاسلام ص۴۷، عسل مصفیٰ ج۱ ص۱۸۷) پر ہے کہ: ’’انبیاء کی وحی اور تمنا میں شیطان دخل دے دیتا ہے۔‘‘