دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اس نے حضرت کے سر پر تیل ملا۔ اگر گنہگار ہونا ہی زنا اور فواحشات کا مترادف ہے تو مرزا بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہوسکتا۔
چنانچہ (براہین احمدیہ ص۵۶۰ حاشیہ در حاشیہ، خزائن ج۱ ص۶۶۸) پر ہے کہ: ’’مرزاقادیانی کو خدا نے کہا کہ ہم نے تم کو بخش چھوڑا ہے جو چاہے سو کر۔‘‘
اور (ضمیمہ انجام آتھم ص۵۷، خزائن ج۱۱ ص۱۴۱) پر ہے کہ: ’’ہم نے تجھے کھلی کھلی فتح دی ہے۔ تاکہ تیرا خدا تیرے اگلے پچھلے گناہ بخش دے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۰۲ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۲۵۴) پر ہے کہ: ’’حضرت مسیح کا معجزہ (پرندے بنا کر ان میں پھونک مار کر اڑانا) حضرت سلیمان کے معجزہ کی طرح عقلی تھا۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ ان دنوں ایسے امور کی طرف لوگوں کے خیالات جھکے ہوئے تھے۔ جو شعبدہ بازی کی قسم میں سے دراصل بے سود اور عوام کو فریفتہ کرنے والے تھے۔ تعجب کی جگہ نہیں کہ خداتعالیٰ نے حضرت مسیح کو عقلی طور پر ایسے طریق پر اطلاع دے دی ہو کہ مٹی کا ایک کھلونا کسی کل کے دبانے یا کسی پھونک مرنے کے طورپر ایسا پرواز کرتا ہو۔ جیسے پرند پرواز کرتا ہے۔ اگر پرواز نہیں تو پیروں سے چلتا ہو۔ کیونکہ حضرت مسیح ابن مریم اپنے باپ یوسف کے ساتھ بائیس برس کی مدت تک نجاری کا کام بھی کرتے رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ بڑھئی کا کام درحقیقت ایسا کام ہے کہ جس میں کلوں کے ایجاد کرنے اور طرح طرح کی صنعتوں کے بنانے میں عقل تیز ہو جاتی ہے۔‘‘
پھر (ازالہ اوہام ص۳۰۴ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۲۵۵) پر لکھتا ہے کہ: ’’اس سے کچھ تعجب نہیں کرنا چاہئے کہ حضرت مسیح نے اپنے دادا سلیمان کی طرح اس وقت کے مخالفین کو یہ عقلی معجزہ دکھلایا ہو۔ کیونکہ حال کے زمانہ میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ اکثر صناع ایسی ایسی چڑیاں بنا لیتے ہیں کہ وہ بولتی بھی ہیں اور ہلتی بھی ہیں اور دم بھی ہلاتی ہیں۔ بمبئی اور کلکتہ میں ایسے کھلونے بہت بنتے ہیں اور یورپ اور امریکہ کے ملکوں سے بکثرت آتے ہیں۔‘‘
(تذکرہ ص۲۷۳) پر ہے کہ: ’’اے وہ عیسیٰ جس کا وقت ضائع نہیں کیا جائے گا۔‘‘
اور (تذکرہ ص۵۲) پر ہے کہ: ’’کہ میں تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور تیری شان عجیب ہے اور تو میری جناب میں وجیہ ہے اور میں نے تجھے اپنے لئے چن لیا ہے۔‘‘
(کتاب ست بچن ص۸، خزائن ج۱۰ ص۱۲۰) پر مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ: ’’جاہلوں کا ہمیشہ سے یہی اصول ہوتا ہے کہ اپنی بزرگی کی پٹڑی جمنا اسی میں دیکھتے ہیں کہ بزرگوں کی خواہ نخواہ تحقیر کریں۔‘‘