عیسیٰ علیہ السلام نبی تھے۔ کیونکہ قرآن اس کو نبی قرار دیتا ہے اور کوئی دلیل اس کی نبوت پر قائم نہیں رہ سکتی۔ بلکہ ابطال نبوت پر کئی دلیلیں قائم ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۱۰،۳۱۱ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۲۵۸) پر ہے کہ: ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام توحید اور دینی استقامت میں (مجھ سے) کم درجہ بلکہ قریب ناکام رہے۔‘‘
نیز مرزاقادیانی کہتا ہے کہ ؎
اینک منم کہ حسب بشارات آمدم
عیسیٰ کجا است تابنہد پا بہ ممبرم
(ازالہ اوہام ص۱۵۸، خزائن ج۳ ص۱۸۰)
(ازالہ اوہام ص۳۰۳، خزائن ج۳ ص۲۵۴) پر ہے کہ: ’’حضرت ابن مریم اپنے باپ (نعوذ باﷲ) یوسف کے ساتھ بائیس برس کی مدت تک نجاری کا کام کرتے رہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۳۰۹، خزائن ج۳ ص۲۵۷) پر ہے کہ: ’’حضرت مسیح ابن مریم باذن وحکم الٰہی الیسع نبی کی طرح عمل الترب (یعنی مسمریزم) میں کمال رکھتے تھے۔ اگر یہ عاجز اس امر کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو خداتعالیٰ کے فضل اور توفیق سے قوی امید رکھتا ہے۔ عجوبہ نمائیوں میں حضرت ابن مریم سے کم نہ رہتا۔‘‘
(چشمہ مسیحی ص۲۷، خزائن ج۲۰ ص۳۵۶) پر ہے کہ: ’’مسیح کا بے باپ پیدا ہونا میری نگاہوں میں کوئی عجوبہ بات نہیں ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام ماں اور باپ دونوں نہیں رکھتے تھے۔ اب قریب برسات آئی ہے۔ باہر جاکر دیکھئے کہ کتنے کیڑے مکوڑے بغیر ماں باپ پیدا ہو جاتے ہیں۔‘‘
(کشتی نوح ص۶۶، خزائن ج۱۹ ص۷۱ حاشیہ) پر ہے کہ: ’’یورپ کے لوگوں کو جس قدر شراب نے نقصان پہنچایا اس کا سبب یہ تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام شراب پیا کرتے تھے۔ شاید کسی بیماری کی وجہ سے یا پرانی عادت کی وجہ سے۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۵تا۷، خزائن ج۱۱ ص۲۸۹تا۲۹۱) پر ہے کہ: ’’حضرت یسوع مسیح شریر، مکار، موٹی عقل والا، بدزبان، غصیلا، گالیاں دینے والا، جھوٹا، علمی اور عملی قویٰ میں کچا، چور، شیطان کے پیچھے چلنے والا اور شیطان کا ملہم تھا۔ اس کے دماغ میں خلل تھا۔ اس کی تین دادیاں اور نانیاں زنا کار اور کسبی عورتیں تھیں۔ جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا تھا۔ آپ کا کنجریوں سے میلان جدی مناسبت سے تھا اور آپ نے زنا کاری کا عطر ایک کنجری سے اپنے سر پر ملوایا۔‘‘