مرزاقادیانی کا قد لمبا اور جسم فربہ اور رنگ سفیدی مائل تھا۔ ڈاڑھی لمبی اور گھنی اور بے ترتیب تھی۔ خط وخال بھدے اور آنکھیں کشادہ تھیں اور دائم المریض ہونے کی وجہ سے رنگت شکستہ تھی۔ مرزاقادیانی بائیس تیس سال تک دریائے دنیا طلبی میں ہاتھ پاؤں مار کر ۱۹۰۸ء میں اڑسٹھ سال کی عمر میں فوت ہوگیا اور حکیم نور الدین کے استقرار خلافت کو اس کی تجہیز وتکفین پر مقدم رکھا گیا۔
(اخبار درنجف سیالکوٹ مورخہ ۱۵؍مئی ۱۹۲۴ء جلد۴ ش۲۳ ص۵، کالم۳) پر ایک نظم درج ہے۔ جس کے اکثر اشعار یہاں لکھتا ہوں۔
نظم
تحصیل میں جس وقت کہ مرزا تھا محرر
دس بیس لیا کرتا تھا تنخواہ بچارا
تنخواہ سے اوقات بسر ہوتی تھی مشکل
اس تھوڑی سی پونجی میں نہ ہوتا تھا گذارا
بے چین تھا ہر وقت ترقی کی ہوس میں
چلتا نہ تھا کچھ شومئے تقدیر سے چارا
پھر پھر کے ہوا اس طرح مرزا بھی جو مایوس
مختاری نے پھر دل کی امنگوں کو ابھارا
مختاری کے پڑھنے کا شب وروز رہا شغل
اس شوق میں ہر ایک مصیبت تھی گوارا
لیکن وہی بدقسمتی یاں بن گئی ہمدم
نکلا جو نتیجہ تو ہوا فیل بچارا
بیٹھا ہوا اس غم میں جو دلگیر تھا اک دن
آ پہنچے وہاں حضرت ابلیس قضاء را
دی آ کے تسلی تشفی کہ نہ غم کر
انسان پہ واجب ہے رکھے صبر کا یارا
دنیا کے کمانے کا تجھے ڈھنگ بتاؤں
پہنچیں نہ تری گرد کو اسکندر ودارا
پنجاب میں اس وقت نبی کی ہے ضرورتکر دعویٰ نبوت کا بہت جلد خدارا
یہ سن کے محرر کی وہیں کھل گئی باچھیں
بس ڈوبنے کو مل گیا تنکے کا سہارا
جھٹ قادیان کے قصبہ کا مرزا نے کیا رخ
شیطان کی جانب سے یہ پاتے ہی اشارا
بن بیٹھا وہاں جاتے ہی مامور من اﷲ
بنوایا پھر اپنے لئے اونچا سا منارا
کہنے لگا عیسیٰ ہوں میں مہدی ہوں نبی ہوں
جو میرا ہے منکر وہ ہے کافر بڑا بھارا
القصہ نبی بن کے بہت لوٹا جہاں کو
بگڑی ہوئی حالت جو تھی خوب اس کو سنوار
جمشید وفریدوں کی طرح قصر بنائے
ہے قادیان میں دید کے قابل یہ نظارا