میرے والد صاحب نے اس نام نہاد خلیفہ کو ایک خط لکھا۔ جس میں مطالبہ کیا کہ وہ ان الزامات کی تکذیب کرے۔ یا اپنی بدکاریوں کا کوئی شرعی جواز پیش کرے یا پھر خلافت سے معزول ہو جائے۔ اس خط کا خلیفہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ لیکن دو مزید خطوط کے بعد اس نے اعلان کر دیا کہ شیخ عبدالرحمن مصری (یعنی میرے والد صاحب) اور ان کے خاندان کے سب افراد کو جماعت سے خارج کر کے ان کا مقاطعہ کیا جاتا ہے۔ میرے والد صاحب کے یہ تینوں خطوط اس زمانہ میں چھپ گئے تھے۔ (نوٹ: اب احتساب قادیانیت کی کسی جلد میں ان کو شامل کیا جائے گا۔ مرتب!)
اس قسم کے مقاطعہ کے اصل ہتھکنڈے یہ ہوتے تھے کہ کسی شخص یا خاندان کا کلیتاً بائیکاٹ کر کے اس کا حقہ پانی بند کر دیا جاتا تھا۔ ان حالات میں ہمارے خاندان کی جانیں اتنے خطرہ میں تھیں کہ حکومت کو ہماری حفاظت کے لئے فوجی پولیس کے دستے متعین کرنا پڑے جو ۲۴گھنٹے ہمارے مکان کے گرد پہرہ دیتے تھے۔ ہم میں سے کسی کو بھی بغیر پولیس کی نگرانی کے گھر سے باہر جانے کی اجازت نہ تھی۔ لیکن باوجود اس قسم کی حفاظتی پیش بندیوں کے مجھ پر اور میرے دو ساتھیوں پر قادیان کے بڑے بازار میں دن دھاڑے حملہ ہوگیا۔ میرے ایک سن رسیدہ ساتھی کو چاقو کا گھاؤ لگا۔ جس سے وہ جاں بحق ہوگئے۔ دوسرے ساتھی کو گردن اور کندھے پر چاقو سے زخم آئے اور انہیں کافی عرصہ ہسپتال میں رہنا پڑا۔ مجھے پروردگار نے اس طرح بچا لیا کہ میرے ہاتھ میں ایک پہاڑی ڈنڈا تھا۔ جو میں حملہ آور کی کھوپڑی پر اتنے زور سے مارنے میں کامیاب ہوگیا کہ اس کے سر سے خون بہنے لگا۔ اس زخم شدہ حملہ آور کو اس کے شرکائے جرم سہارا دے کر آناً فاناً غائب ہوگئے اور اسے ایک ایسی پوشیدہ جگہ میں چھپا دیا جو پہلے سے معین کر رکھی تھی۔ لیکن پولیس اس کے سر سے ٹپکے ہوئے خون کے قطرات دیکھ کر وہاں پہنچ گئی اور اسے گرفتار کر لیا۔ عدالت عالیہ میں اس کا جرم ثابت ہوا اور اسے پھانسی دی گئی۔ اس زمانہ کی قادیانی ریاست میں امن وقانون کی اتنی برملا تحقیر تھی کہ قاتل کی میت کا جلوس دھوم دھام سے نکالا گیا اور خلیفہ (مرزامحمود) نے خود نماز جنازہ پڑھائی۔ جو قادیانی مریدوں کی نظر میں بہت بڑی عزت افزائی سمجھی جاتی تھی۔
اس حادثہ کے بعد مسلمانوں کی ایک جمعیت ’’مجلس احرار الاسلام‘‘ نے ہماری حفاظت کے لئے رضاکاروں کے جتھے بھیجنا شروع کر دئیے۔ جو فوجی پولیس کے علاوہ تھے۔ ان رضاکاروں نے ہمارے بنگلے کے گرد میدان میں خیمے نصب کر دئے اور ہمارا گھر ایک محصور قلعہ کی طرح بن گیا۔ اس اثناء میں مرزائی ٹولے نے میرے والد صاحب کو جعلی مقدمات میں الجھانا شروع کردیا۔ تاکہ جماعت میں ان کی ساکھ اٹھ جائے۔ نیز یہ کہ ان پر مالی بوجھ پڑے۔ الغرض ہر