اپنے سیاہ کاریوں کے اڈے جمائے بیٹھے تھے اور یہ سب کچھ ان لوگوں کی آپس میں اس خاموش تفہیم کے ماتحت ہورہا تھا کہ تم میری داڑھی نہ نوچو۔ تو میں تمہاری داڑھی نہ نوچوں گا۔ درحقیقت قادیان کے نظام میں اعلیٰ عہدوں پر تقرر اکثر اسی قماش کے لوگوں کا ہوتا تھا۔ جو مرزا خاندان کے اسلوب زندگی اور ان کی جنسی قدروں کو اپنا لیتے تھے۔ یعنی اس خاندان کی مطلق العنان جنسی قدروں کے مطابق جس خاندان کو یہ لوگ خاندان نبوت کے نام سے موسوم کرنے کی جرأت اور گستاخی کرتے ہیں۔
یہ کوئی غیرمتوقع بات نہ تھی کہ اس قسم کی اخلاقی قیود سے آزاد عیاشیوں کی افواہیں باہر بھی پھیلنا شروع ہوگئیں اور باہر سے اوباش نوجوان اس جماعت میں شامل ہونے لگے۔ تاکہ ان جنسی پابندیوں سے آزاد ہوجائیں۔ جو ایشیائی تمدن وثقافت ان پر عائد کرتا ہے اور اس طرح یہ شیطنت مآب دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا۔
خلیفہ کے اس خفیہ اڈے سے قطع تعلق کرلینے کے بعد میری زندگی دائمی طور پر خطرہ میں رہنے لگی۔ اس کے غنڈوں نے سایہ کی طرح میرا تعاقب کرنا شروع کردیا۔ ایسی مایوس کن اور پرخطر حالت میں میرے لئے کوئی چارہ نہ تھا۔ سوائے اس کے کہ کھلم کھلا مقابلہ پر اترآؤں اور انجام خدا پر چھوڑ دوں۔ چنانچہ میں خلیفہ سے ملنے گیا اور اسے ایک تحریر کی نقل دکھائی۔ جس میں میں نے اس کے کرتوتوں کی تفاصیل لکھی تھیں اور اس کے شرکائے جرم کے نام، تاریخیں وغیرہ درج کی تھیں۔ میں نے اسے بتایا کہ اس تحریر کی نقلیں میں نے بعض ذمہ دار احباب کے پاس محفوظ کرالی ہیں اور انہیں ہدایت کی ہے کہ ان لفافوں کو میری موت یا میرے لاپتہ ہوجانے پر کھول لیا جائے۔ اس حکمت عملی نے مطلوبہ مقصد پورا کر دیا اور میں بلا خطر آزادی سے قادیان کے گلی کوچوں میں پھرنے لگا۔
جیسے جیسے مجھ پر قادیان کے اس گندے ماحول کا انکشاف ہوتا گیا۔ اسی نسبت سے میں مذہب سے بیزار ہوتا گیا۔ صرف قادیانی مذہب سے ہی نہیں بلکہ مجموعی طور پر ادارہ مذہب سے اور بتدریج یہ حالت دھریت تک پہنچ گئی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس سقیم حالت نے ایک روحانی خلاء بھی پیدا کر دیا۔ جس کو پر کرنے کے لئے میری تنہا ذات میں طاقت نہ تھی۔ بالآخر مجھے اپنے والد صاحب کو یہ سب حالات بتانا پڑے جو طبعاً ان کے لئے انتہائی صدمہ کا باعث ہوئے۔ قدرتاً وہ ایک بچے کی باتوں کو بلاتصدیق مان نہیں سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے محتاط طور پر تحقیقات کرنا شروع کر دیں اور کچھ عرصہ میں ہی ان پر ثابت ہوگیا کہ میں سچ کہہ رہا ہوں۔