ہر چند کہ یہ عذر، عذر لنگ کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ بات کسی معقول انسان کے لئے قابل قبول نہیں کہ عیسائیوں نے ایک فرضی یسوع کے بارے میں یہ باتیں کہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عیسائیوں نے ابن اﷲ اسی مسیح ابن مریم کو کہا تھا۔ جو اﷲ کے نبی تھے۔ جن کا نام قرآن مجید میں عیسیٰ بھی آیا ہے اور مسیح بھی۔ خود قرآن مجید کی شہادت یہ ہے کہ: ’’وقالت النصاریٰ المسیح ابن اﷲ (س۹:۳۱)‘‘ {اور نصاریٰ نے کہا کہ مسیح اﷲ کے بیٹے ہیں۔} اور عجیب بات یہ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی کو عیسائی ابن اﷲ یا اﷲ کہتے تھے۔ ابھی جو عبارت دافع البلاء کی آپ نے سنی اس کے الفاظ کی تعبیر کسی تشریح کے بغیر واضح ہے کہ یہاں جو شخصیت زیربحث ہے وہ کسی فرضی مسیح اور یسوع کی نہیں۔ وہی حقیقی مسیح علیہ السلام زیر بحث ہیں جو خدا کے نبی تھے۔ موسیٰ علیہ السلام کے بعد تشریف لائے اور جنہیں مسلمان خدا کا سچا نبی تسلیم کرتے ہیں۔
مرزاغلام احمد قادیانی کہتے ہیں: ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام جو موسیٰ سے کمتر اور اس کی شریعت کے پیرو تھے… جن لوگوں نے ان کو خدا بنایا ہے۔ جیسے عیسائی یا وہ جنہوں نے خواہ نخواہ خدا کی صفات انہیں دی ہیں۔ جیسا کہ ہمارے مخالف اور خدا کے مخالف نام کے مسلمان وہ اگر ان کو اوپر اٹھاتے اٹھاتے آسمان پر چڑھا دیں یا عرش پر بٹھا دیں یا خدا کی طرح پرندوں کا پیدا کرنے والا قرار دیں تو ان کو اختیار ہے۔ انسان جب حیا اور انصاف کو چھوڑ دے تو جو چاہے کہے اور جو چاہے کرے۔‘‘ (دافع البلاء ص۴ حاشیہ، خزائن ج۱۸ ص۲۱۹)
یہی نہیں مرزاغلام احمد قادیانی نے (توضیح المرام ص۳، خزائن ج۳ ص۵۲) میں صراحت سے کہا کہ سیدنا مسیح علیہ السام ہی کا نام عیسیٰ اور یسوع ہے اور انہی کے بارے میں احادیث میں وارد ہوا ہے کہ وہ آسمانوں پر اٹھائے گئے ہیں۔ اسی طرح انہوں نے بعض تحریروں میں عیسائیوں کو مخاطب ہوتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ یسوع کو نبی اﷲ مانو۔
ان تصریحات سے قادیانی مبلغین کے اس مغالطے کی اصل حقیقت بے نقاب ہوجاتی ہے کہ جن مقامات پر مرزاغلام احمد قادیانی نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں برے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ وہاں مراد عیسیٰ علیہ السلام نہیں۔ ایک فرضی شخص یسوع ہے۔ جس کے بارے میں عیسائیوں کا عقیدہ یہ تھا کہ وہ ابن اﷲ ہونے کا دعویدار تھا اور کردار کے اعتبار سے وہ شرابی بھی تھا اور بدکار عورتوں سے میل جول بھی رکھتا تھا۔