لیکن دافع البلاء کی جو عبارت ابھی آپ کی خدمت میں پیش کی گئی اس میں تو کوئی مغالطہ سعی بسیار کے باوجود پیدا نہیں کیا جاسکتا۔ اس عبارت میں چار باتیں ہر اعتبار سے واضح ہیں۔
۱…ایک تو یہ کہ مرزاغلام احمد قادیانی اس مقام پر جو کچھ کہہ رہے ہیں۔ وہ کسی فرضی یسوع کے متعلق نہیں بلکہ وہ ان حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام کے متعلق گفتگو کر رہے ہیں۔ جن کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے اور جن کے بارے میں مسلمان عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ زندہ آسمان پر اٹھائے گئے تھے۔
۲…
دوسری بات یہ واضح ہوتی ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی ان مسیح ابن مریم علیہ السلام کے متعلق جو کچھ کہتے ہیں وہ کسی الزامی انداز میں نہیں کہتے بلکہ یہ ان کا اپنا عقیدہ ہے جسے وہ بیان کر رہے ہیں۔
۳…
تیسری حقیقت جو مرزاغلام احمد نے یہاں بصراحت بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام کے متعلق مرزاغلام احمد قادیانی نے جو باتیں بیان کی ہیں۔ وہ نہ صرف یہ کہ ان کا اپنا عقیدہ ہے۔ بلکہ ان کے نزدیک یہ باتیں قرآن مجید سے ثابت ہیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’اسی وجہ سے خدا نے قرآن میں یحییٰ کا نام حصور رکھا، مگر مسیح کا یہ نام نہ رکھا۔ کیونکہ ایسے قصے اس نام کے رکھنے سے مانع تھے۔‘‘
(دافع البلاء ص۴ حاشیہ، خزائن ج۱۸ ص۲۲۰)
۴…
چوتھی بات اس مقام پر مرزاغلام احمد قادیانی احمدیہ کہہ رہے ہیں کہ سیدنا مسیح علیہ السلام اور سیدنا یحییٰ علیہ السلام میں جو فرق پایا جاتا ہے اور جس فرق کو ملحوظ رکھ کر قرآن مجید نے یحییٰ علیہ السلام کو تو حصور کہا۔ مگر حضرت مسیح کو ایسا نہیں کہا وہ یہ ہے۔
الف…
حضرت یحییٰ شراب نہیںپیتے تھے اور حضرت مسیح علیہ السلام شراب پیتے تھے۔
ب…
فاحشہ عورتیں اپنی حرام کمائی سے خریدا ہوا عطر حضرت مسیح کے سر پر ملا کرتی تھیں۔
ج…
بے تعلق جوان عورتیں حضرت مسیح کی خدمت کیا کرتی تھیں۔
د…
حضرت مسیح ابن مریم نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کے ہاتھ پر اپنے گناہوں سے توبہ کی تھی اور ان کے خاص مریدوں میں داخل ہوئے تھے۔ قادیانی دوستو! خدارا غور کرو! مرزاغلام احمد قادیانی ایک شخص کو شرابی کہتے ہیں۔ بدکار عورتوں سے ان کا میل جول ثابت کرتے ہیں۔ فاحشہ عورتوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ اس شخص کے بدن کو چھوأ کرتی تھیں۔ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ شخص ایسا ہونے کے باوجود اور خود