خلاف ہے کہ ہر کسی کو اظہار عقیدہ وخیال کی آزادی حاصل ہے۔ ہر چند کہ یہ اصول بعض پہلوؤں سے مستحق نظر ہے۔ لیکن اتنی بات تو سبھی کو تسلیم ہے کہ کسی بھی شخص کو خواہ وہ اقلیت کافرد ہو یا اکثرت کا رکن۔ یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنا کوئی ایسا عقیدہ یا دعویٰ شائع کرے جو کروڑوں انسانوں کے جذبات کو مجروح کرنے والا، ان کی ایمانی غیرت کو کھلا چیلنج اور ان کے جذبات ملی کے لئے الٹی میٹم کی حیثیت رکھتا ہو۔
بنابریں ہم حکومت مغربی پاکستان کے اس اقدام کی پرزور تائید کرتے ہیں۔ اس پر ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں اور یہ درخواست کرتے ہیں کہ وہ قادیانیوں کے احتجاج اور ان کی دھمکیوں سے متأثر ہوکر اس حکم کی واپسی پر ہرگز ہرگز غور نہ کرے۔ مزید برآں ہم یہ بات بھی عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ پچھلے سال مرزاغلام احمد قادیانی کے کتابچہ سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب کی ضبطی کا حکم واپس لینے کا اقدام اگرچہ درست نہ تھا۔ تاہم ایک غلطی کا ازالہ کا مسئلہ یکسر دوسری نوعیت کا مسئلہ ہے۔ اگر خدانخواستہ اس پمفلٹ کی ضبطی کا حکم واپس لے لیا گیا تو مسلمانان پاکستان یہ سمجھنے پر مجبور ہوں گے کہ (خاکم بدہن) ہم اس لائق نہیں رہے کہ جس ذات اقدس کے نام کے طفیل ہمیں یہ خطہ زمین حاصل ہوا ہے۔ ہم ان کی عظمت کے تحفظ کا ایک ادنیٰ ترین حق ادا کر سکیں اور ظاہر ہے نوکروڑ مسلمانوں کا یہ تأثر بے حد شدید اور حددرجہ نتیجہ خیز ہوسکتا ہے۔
قادیانیوں سے بطور حرف آخر ہم قادیانیوں سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ حضرات صرف اسی نقطۂ نظر سے سوچنے پر اکتفاء نہ کیجئے کہ مرزاغلام احمد قادیانی آپ کے نبی ہیں۔ اس لئے ان کا لکھا ہوا ایک ایک حرف مقدس ہے اور اس کی حفاظت میں جان دے دینا شہادت ہے۔
اوّلاً… تو آپ کو محسوس ہونا چاہئے کہ آپ ایک ایسے ملک کے باشندے ہیں۔ جس کے اصول مالکوں (ملت اسلامیہ کے نوکروڑ مسلمانوں) کے عقائد آپ سے یکسر مختلف ہیں۔ وہ بقول مفکر پاکستان علامہ اقبال کے، آپ کے وجود کو اپنی ملی اجتماعیت کے لئے ایک چیلنج خیال کرتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ آپ ان حدود تک محدود رہیں۔ جو بین الاقوامی حیثیت سے متعین ہیں کہ کسی بھی اقلیت کو اکثریت کی اجتماعی حیثیت کے لئے چیلنج نہیں بننا چاہئے اور اس کے اساسی معتقدات کے خلاف توہین آمیز جسارت نہیں کرنا چاہئے۔