وشبہ میں نہ پڑئیے۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۵۷۳، خزائن ج۵ ص۵۷۳)
’’اور میں اپنی طرف سے تو صرف یہی عرض کرتا ہوں کہ میں آپ کا ہمیشہ ادب ولحاظ ہی ملحوظ رکھتا ہوں اور آپ کو ایک دیندار اور ایماندار بزرگ تصور کرتا ہوں اور آپ کے حکم کو اپنے لئے فخر سمجھتا ہوں اور ہبہ نامہ پر جب لکھو، حاضر ہوکر دستخط کر جاؤں اور اس کے علاوہ میری املاک خدا کی اور آپ کی ہے۔ عزیز محمد بیگ کے لئے پولیس میں بھرتی کرنے کی اور عہدہ دلانے کی خاص کوشش وسفارش کر لی ہے۔ تاکہ وہ کام میں لگ جاوے اور اس کا رشتہ میں نے ایک بہت امیر آدمی جو میرے عقیدت مندوں میں ہے تقریباً کر دیا ہے اور اﷲ کا فضل آپ کو شامل ہو۔ فقط!‘‘ (خاکسار مرزاغلام احمد قادیانی مورخہ ۲۰؍فروری ۱۹۸۸ئ، منقول از رسالہ کلمہ فضل رحمانی)
اس کے بعد تصور کیجئے کہ یہی شخص یہ کہتا ہے کہ مجھ میں اور محمدﷺ میں کوئی فرق وامتیاز نہیں میرا وجود اسی رحمت عالمﷺ کا وجود ہے۔ جن کی عظمت پر افلاک کے باشندے بھی شاہد ہیں اور اس سرور عالمﷺ فداہ انفسنا وارواحنا کے بارے میں اعداء نے بھی شہادت دی ہے کہ عزت نفس، مکارم اخلاق، پاکیزگی، نفس میں آپؐ یکتا تھے۔
ایک پہلو اور …؟
مرزاغلام احمد قادیانی نے اعلان کیا کہ وہ ایک کتاب (براہین احمدیہ) کے پچاس حصے شائع کریں گے۔ لوگوں نے ان پچاس حصوں والی کتاب کی پیشگی قیمت مرزاغلام احمد قادیانی کو بھیج دی۔ وہ پچیس سال کے عرصے میں کتاب کے صرف پانچ حصے شائع کر سکے۔ ان سے لوگوں نے مطالبہ کیا کہ آپ نے قیمت تولی ہے پچاس حصوں کی، اور دئیے ہیں پانچ حصے۔ اصول تجارت اور دیانت وامانت کے نقطۂ نظر سے یہ صورتحال کیسی ہے؟
سنئے مرزاغلام احمد قادیانی کیا جواب دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’پہلے پچاس حصے لکھنے کا ارادہ تھا۔ مگر پچاس سے پانچ پر اکتفا کیا گیا اور چونکہ پچاس اور پانچ میں صرف ایک نقطہ کا فرق ہے۔ اس لئے پانچ حصوں سے وہ وعدہ پورا ہوگیا۔‘‘
(دیباچہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۷، خزائن ج۲۱ ص۹)
خدا کے لئے غور کیجئے یہ شخص جو لین دین اور تجارت میں ۵ اور ۵۰ میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتا اور اس جسارت کا بھی مظاہرہ کرتا ہے کہ ۵۰ کے نقطوں کو صفر کہہ کر مطالبے کو ٹال دے۔ جب اس سیرت وکردار کا حامل شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ محمدﷺ بعثت ثانیہ میں میرے وجود میں ظاہر ہوئے ہیں تو اس صادق امین کا کوئی امتی اسے کس طرح برداشت کر سکتا ہے۔ جس صادق