رہے۔ لیکن وہ اس کوشش میں لگے رہے کہ ان کا جتھ مضبوط ہو اور مریدین کا حلقہ بڑھتا رہے۔ ۱۸۹۸ء میں انہوں نے اپنی جماعت کو مسلمانوں سے الگ کرنے کی داغ بیل ڈالی اور اپنے مریدوں کو حکم دیا کہ وہ اپنی لڑکیاں غیراحمدیوں کو نہ دیں۔
۱۹۰۱ء قادیانی تحریک میں اہم ترین سال ہے۔ اس سال کے آخر میں ایک جانب تو مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنے مریدوں کو حکم دیا کہ مردم شماری میں وہ اپنے آپ کو احمدی مسلمان لکھوائیں۔ بالفاظ مصنف ’’سیرت مسیح موعود‘‘ ’’گویا اس سال آپ نے اپنی جماعت کو احمدی کے نام سے مخصوص کر کے دوسرے مسلمانوں سے ممتاز کر دیا۔‘‘ (سیرت مسیح موعود ص۵۳)
دوسرا اقدام انہوں نے ’’ایک غلطی کا ازالہ‘‘ کی تصنیف کی صورت میں کیا۔ اس کے بارے میں خلیفہ ربوہ لکھتے ہیں: ’’ایک غلطی کا ازالہ ۱۹۰۱ء میں شائع ہوا ہے۔ جس میں آپ نے اپنی نبوت کا اعلان بڑے زور سے کیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ۱۹۰۱ء میں آپ نے عقیدے میں تبدیلی کی ہے۔‘‘ (حقیقت النبوۃ ص۱۲۱)
ایک غلطی کا ازالہ کا پیش منظر
یہ تو تھا ایک غلطی کا ازالہ کا پس منظر اور ہر وہ شخص جس کے دل میں ذرہ برابر بھی دیانت ہے۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ پمفلٹ کسی اہم اختلافی مسئلہ سے متعلق نہیں ہے اور اس کا تعلق امت مسلمہ سے نہیں ہے۔ بقول مرزامحمود احمد، مرزاغلام احمد قادیانی نے پہلی مرتبہ کھل کر دعویٰ نبوت اسی پمفلٹ ایک غلطی کا ازالہ میں ہی کیا اور انہی کے قول کے مطابق ’’ایک غلطی کا ازالہ سے پہلی کی جن تحریروں میں مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنے نبی ہونے سے انکار کیا ہے۔ وہ سب کی سب منسوخ ہیں۔‘‘ (حقیقت النبوۃص۱۲۱)
اب ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ایک غلطی کا ازالہ ایک انتہائی اشتعال انگیز ناقابل برداشت اور امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی غیرت ایمانی اور وجود ملی کے خطرناک چیلنج کے پیش منظر کا بھی حامل ہے۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے اس پمفلٹ میں کھلم کھلا دعویٰ نبوت کرنے کے بعد یہ جسارت بھی کی کہ: ’’میرا نام ظلی طور پر محمد اور احمد ہے۔ میں محمد ثانی ہوں جو محمد اوّل (ﷺ) کی تصویر اور انہی کا نام ہے۔‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ ص۵، خزائن ج۱۸ ص۲۰۹)