ہندوستان کے علماء کے اس اجماعی فتویٰ کفر سے مرزاغلام احمد قادیانی اور ان کے چند سو معتقدین کے لئے شدید مشکلات پیش آئیں۔ تقریباً ہر جگہ مسلمانوں نے انہیں اپنے سے الگ ایک امت سوچنا شروع کر دیا تو مرزاغلام احمد قادیانی نے دہلی کے ایک مسلم اجتماع (منعقدہ ۲۸؍ستمبر ۱۸۹۱ئ) میں اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی۔ لیکن چونکہ اہل علم طبقہ کے اکثر افراد اور عام مسلمان ایک عرصے سے مرزاغلام احمد قادیانی کے ایسے اعلانات کی قدروقیمت معلوم کر چکے تھے اور وہ دیکھ رہے تھے کہ یہ حضرت ایک قدم دعویٰ نبوت کی جانب آگے بڑھا لیتے ہیں تو اس پر گرفت ہوتی ہے۔ یہ فوراً ایک قدم پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ مگر جونہی دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کا اضطراب کم ہوا تو یہ پہلے قدم سے ایک قدم اور آگے بڑھا لیتے ہیں اور حریم نبوت کی جانب تانک جھانک شروع کر دیتے ہیں۔ اس تأثر کی بناء پر جامع مسجد دہلی میں جمع شدہ اہل علم اور عوام کی جمعیت نے مرزاغلام احمد قادیانی کا بیان سننے سے انکار کر دیا اور جونہی مرزاغلام احمد قادیانی جامع مسجد میں پہنچے شدید ہنگامہ شروع ہوگیا۔
اگر اس وقت انگریزی عہد کے ایک سپرنٹنڈنٹ پولیس اور اس کے ماتحت ۱۰۰کانسٹیبلوں (اس تعداد کا تصور آج کے حالات میں نہ کیجئے، ۱۸۹۱ء کے انتہائی مستبدانہ دور کو سامنے رکھ کر اس عظیم جمعیت کا اندازہ کیجئے) کی سرپرستی اور حفاظت ’’مرزاغلام احمد قادیانی کو حاصل نہ ہوتی تو بظاہر اس ہنگامے سے ان کے زندہ بچ نکلنے کی کوئی صورت دکھائی نہ دیتی تھی۔‘‘
اس موقعہ پر علی گڑھ کے ایک پلیڈر خواجہ محمد یوسف نے ان سے ایک بیان صفائی لکھوایا۔ یہ بیان اس مجمع میں تو نہ پڑھا جاسکا۔ لیکن ۲؍اکتوبر کو یہ بیان صفائی بصورت اشتہار شائع ہوا۔ جس میں مرزاغلام احمد قادیانی نے لکھا تھا کہ: ’’میں نہ نبوت کا مدعی ہوں اور نہ معجزات اور ملائک اور لیلتہ القدر وغیرہ سے منکر، بلکہ میں ان تمام امور کا قائل ہوں جو اسلامی عقائد میں داخل ہیں اور جیسا کہ سنت جماعت کا عقیدہ ہے۔ ان سب باتوں کو مانتا ہوں جو قرآن وحدیث کی رو سے مسلم الثبوت ہیں اور سیدنا ومولانا حضرت محمدﷺ ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت اور رسالت کو کاذب اور کافر جانتا ہوں۔ میرا یقین ہے کہ وحی رسالت حضرت آدم صفی اﷲ سے شروع ہوئی اور جناب رسول اﷲ محمد مصطفیﷺ پر ختم ہوگئی۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۳۰) ۱۸۹۱ء سے ۱۸۹۷ء تک مرزاغلام احمد قادیانی اپنے اونچے دعؤوں میں تو قدرے محتاط