مدعا اور مضمون کو بیان کیا جائے اور جس پس منظر وپیش منظر کے تحت یہ پمفلٹ لکھا گیا تھا اسے واضح کریں۔
پس منظر
تاریخی طور پر صورت واقعہ یہ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی اپنی ابتدائی تصانیف میں اگرچہ یہ اظہار کرتے رہے کہ وہ:
٭… ’’سید الرسلﷺ کو خاتم النبیین یقین کرتے ہیں اور حضور کے بعد ہر اس شخص کو جو کسی قسم (ظلی، بروزی، امتی) نبی ہونے کا دعویٰ کرے وہ اسے کافر، ملت اسلامیہ سے خارج اور دجال وکذاب جانتے ہیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۳۵۵)
٭… وہ اپنے بارے میں بھی بوضاحت کہتے رہے کہ: ’’میں نبوت کا مدعی نہیں ہوں اور اگر ایسا دعویٰ کروں تو میں کافر ہوں گا۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۳۰)
٭… ’’مرزاغلام احمد قادیانی جس طرح ختم نبوت پر ایمان کا اظہار کرتے تھے۔ اسی طرح وہ سیدنا مسیح ابن مریم علیہ السلام کے زندہ ہونے اور انہی کے نزول فرمانے پر عقیدہ رکھتے تھے۔‘‘
(براہین احمدیہ ص۴۹۹، خزائن ج۱ ص۵۹۳)
لیکن وہ ابتداء ہی سے ایک عجیب وغریب قسم کی ذہنی کشمکش میں مبتلا تھے۔ وہ بعض اوقات اپنے کشوف پیش کرتے، بعض اوقات الہامات کا دعویٰ کرتے، کبھی کبھی پیش گوئیاں کرتے اور بعض اوقات ایسے جملے بھی ان کے قلم سے نکل جاتے جن سے یہ ٹپکتا کہ وہ اپنے آپ کو نبی بھی سمجھتے ہیں۔ ان کے ان اعلانات سے علماء اسلام چوکنا ہوتے، وہ ان سے وضاحت طلب کرتے تو یہ بالعموم مکر جاتے اور جیسا کہ اوپر ذکر کیاگیا۔ مدعی نبوت کو کافر قرار دیتے۔ یہ صورتحال ۱۸۹۵ء تک جاری رہی۔
۱۸۹۱ء میں مرزاغلام احمد قادیانی نے اپنی بعض تصانیف بالخصوص (توضیح المرام ص۱۶، خزائن ج۳ ص۵۹، فتح اسلام ص۱۵، خزائن ج۳ ص۱۰) میں یہ اعلان کر دیا کہ: ’’سیدنا مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام فوت ہوچکے ہیں اور خود مرزاغلام احمد قادیانی مسیح موعود ہیں۔‘‘
ان کے اس اعلان کے بعد علماء کا حسن ظن ختم ہوگیا اور جو ’’کہہ مکرنی‘‘ مرزاغلام احمد قادیانی کا معمول تھی۔ انہوں نے اس پر اعتماد ترک کر کے جون ۱۸۹۱ء میں دہلی میں جمع ہوکر متفقہ طور پر مرزاغلام احمد قادیانی کو کافر قرار دیا۔