ہے… خدا کے لئے ہماری امن پسندی اور وفاشعاری کا ایسا امتحان نہ لیجئے۔ جو ہمارے دلوں کو زخمی کرنے اور ہمارے عقائد پر زد مارنے کا موجب ہو۔ اس کے تو یہ معنی ہیں کہ آپ ہمارے دین میں مداخلت کرتے اور ہمیں اپنے عقائد کے اظہار سے منع کرتے ہیں۔‘‘ (۸؍جولائی ۱۹۶۴ئ)
خطرناک دھمکی
الفضل نے ایک خطرناک دھمکی بھی حکومت اور باشندگان ملک کو دی ہے۔ اس نے ۲۷؍جون۱۹۶۴ء کے شمارے میں ’’الٰہی جماعتوں پر ابتلاء رحمت کا درجہ رکھتے ہیں‘‘ کے عنوان سے مقالہ افتتاحیہ میں مرزاغلام احمد قادیانی کے طویل اقتباسات پیش کئے ہیں۔ ان کا آخری اقتباس اس واقعہ پر مشتمل ہے۔ جو مرزاغلام احمد قادیانی کی زندگی میں کابل میں پیش آیا۔ اس واقعہ کا اجمالی تعارف یہ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی کے دو امتی کابل گئے۔ وہاں انہوں نے مرزاغلام احمد قادیانی کی نبوت اور جہاد کے منسوخ ہونے کی تبلیغ کی۔ حکومت نے علماء سے استصواب کیا۔ علماء نے فتویٰ دیا کہ مرزاغلام احمد قادیانی کی نبوت کو تسلیم کرنا ارتداد ہے اور اسلامی شریعت کے ایک حکم کو منسوخ قرار دینا خاتم النبیینﷺ کے خلاف بغاوت ہے۔ مزید برآں ان دونوں قادیانیوں کے بارے میں یہ شبہ بھی پایا جاتا تھا کہ یہ انگریز کے جاسوس ہیں۔ بہرنوع ان کے بارے میں فیصلہ ہوا کہ اگر یہ ان عقائد فاسدہ سے توبہ کر لیں تو ان کو اصلاح کا موقع دیا جائے۔و گرنہ قتل کر دیا جائے۔ قادیانیوں نے اپنے ارتداد اور اسلامی شریعت کے ایک صریح حکم، جہاد کو منسوخ کہنے پر اصرار کیا۔ اس بناء پر وہ سنگسار کر دئیے گئے۔
مرزاغلام احمدقادیانی کی جو عبارت الفضل نے پیش کی ہے۔ اس کے حسب ذیل الفاظ حکومت پاکستان اور اسلامیان ملک کے لئے خصوصیت سے قابل غور ہیں۔
’’ہماری (قادیانی) جماعت کو یاد رکھنا چاہئے کہ جب تک وہ بزدلی کو نہ چھوڑے گی اور استقلال اور ہمت کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کی ہر ایک راہ میں مصیبت ومشکل کے اٹھانے کے لئے تیار نہ رہے گی وہ صالحین میں داخل نہیں ہوسکتی۔ صاحبزادہ عبداللطیف شہید (جسے کابل میں سنگسار کیاگیا تھا) کی شہادت کا واقعہ تمہارے لئے اسوہ حسنہ ہے۔ اس نے جان دینی گوارا کی۔ مگر ایمان کو ضائع نہیں کیا۔ عبداللطیف کہنے کو مارا گیا یامرگیا۔ مگر یقینا سمجھو کہ وہ زندہ ہے اور کبھی نہیں مرے گا۔‘‘