ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے اور کم ازکم ہم اپنے لئے اسے قطعاً جائز نہیں سمجھتے کہ ان کے کافرانہ عقائد پر اظہار رائے کے بعد اس فریضہ دینیہ سے عہدہ برآ ہوگئے۔ جس کے ہم منجانب اﷲ اور اپنے ہادی وآقا محمدﷺ کے ہاں سے ذمہ دار قرار دئیے گئے ہیں۔
اس موضوع پر ہمارا نقطہ نظر ہی نہیں، ایمان وعقیدہ یہ ہے کہ ہمیں جہاں اپنے مسلمان بھائیوں کو اس فتنہ تضلیل وارتداد سے محفوظ رکھنے کے لئے انتہائی جانفشانی اور قلبی کیفیات میں ڈوب کر کام کرنا ہے۔ وہاں ہمارا دینی فریضہ یہ ہے کہ ہم قادیانی حضرات کو پھر سے اسلام کے دامن رحمت میں واپس لانے کے لئے اس طرح کام کریں کہ جن کے نصیب میں منجانب اﷲ ہدایت ہے۔ وہ دامن رحمت عالمﷺ میں پناہ حاصل کر لیں اور جن پر شقاوت غالب آچکی ان پر اتمام حجت ہو جائے۔ یہ کام اس انداز وکیفیت میں ڈوب کر کرنا چاہئے کہ اس کے پیچھے ہمدردی، خیرخواہی، ایمانی بصیرت، حکمت تبلیغ ودعوت اور اخلاق اسلامی کے عناصر اپنی کارفرمائی کا جلوہ دکھاسکیں۔ محض جوش وخروش کا اظہار جادبے جانفرت انگیزی صرف تردید قادیانیت اور موجودہ علمی، سیاسی، معاشرتی اور اخلاقی ماحول کو نظر انداز کر کے کام کرتے چلے جانا۔ اس کے نتائج وثمرات نہ حاصل ہونے کے برابر ہیں۔ ہم پر عائد فرض تقاضا کرتا ہے کہ ہم سراپا عمل واخلاص ہوں اور ہمارے ہر لفظ اور ہر اقدام سے یہ بات مشاہدے میں آئے کہ ہم جو کچھ کہہ رہے اور کر رہے ہیں اس کے پیچھے مذکورہ پانچوں عوامل کارفرما ہیں۔
یہ کام کیسے کیا جائے! جو حضرات اس سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ اس کام کے لئے ایک باضابطہ ادارۂ مرکزی مجلس تحفظ ناموس رسالت کے عنوان سے خط وکتابت کے ذریعہ مطلوبہ معلومات بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ اپنا عملی تعاون پیش کر کے اس کی وسعت میں ہاتھ بٹا سکتے ہیں اور اس ادارہ سے تعاون حاصل کر کے فریضہ سے عہدہ برآ ہونے میں وہ آسانی بھی انہیں میسر آسکتی ہے۔ جو اس اہم تر دینی فریضہ سے سرخروئی کا ذریعہ بنے۔ جس کے بارے میں ہم سب داور محشر کے حضور مسئول ہوں گے۔
’’اللہم وفقنا جیمعاً لماتحیہ وترضاہ من القول والعمل والنیۃ والہدیٰ انک علی کل شیٔ قدیر وصل وسلم علی صفوۃ خلقک وجیبک ونبیک وامام الرسل وخاتم النبیین محمد وعلیٰ آلہ وصحبہ واہل بیتہ وکل من آمن بہ واجتہد فی سبیلک الیٰ یوم الدین برحمتک یا ارحم الرٰحمین‘‘