تیسرے مرحلے کے بارے میں وہ کہتے ہیں: ’’یسوع مسیح کے چاروں بھائی اور دو بہنیں تھیں۔ یہ سب یسوع کے حقیقی بھائی اور حقیقی بہنیں تھیں۔ یعنی سب یوسف اور مریم کی اولاد تھی۔‘‘ (کشتی نوح ص۱۶، خزائن ج۱۹ ص۱۸ حاشیہ)
لیکن وہ اپنی عادت سے مجبور اور بداعتقادی کے ہاتھوں بے بس ہیں۔ انہوں نے اپنے مزاج کی عکاسی ان الفاظ سے کی۔
ایمانی جذبات اور شرافت انسانی دونوں کی نوحہ خوانی سے متاثر ہوکر یقینا ہر سلیم الفطرت انسان گندگی کی اس پوٹ سے متنفر ہوگا اور اس سنڈاس سے ہر نجیب انسان کا دماغ ماؤف ہوتا محسوس ہورہا ہوگا۔ مگر ہماری مجبوری یہ ہے کہ اس دنیا میں ایسے ان گنت انسان موجود ہیں جو اس قسم کی رذالتوں کو صرف گوارا ہی نہیں کرتے۔ انہیں قبول بھی کر لیتے ہیں اور حدیہ ہے کہ ایسی ناپاک اور انسانیت کش باتوں کو سن پڑھ کر بھی ان کی انسانی حس بیدار نہیں ہوتی اور گندگی کی اس پوٹ کو اپنی پیٹھ پر لادنے والوں کو مقدس انسان مجدد، مسیح، مہدی اور نبی اﷲ تک بھی مان لیتے ہیں۔ سچ ہے: ’’ولقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم۰ ثم رددناہ اسفل سافلین‘‘
ہم نے انسان کو بہترین سانچے اور حسین ترین توازن سے پیدا کیا اور ازاں بعد (اس کے انحراف وارتداد کی وجہ سے) اسے تمام پستیوں سے پست تر مقام پر اوندھے منہ گرادیا۔ ’’ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ ھدیتنا وہب لنا من لدنک رحمۃ انک انت الوہاب‘‘
نگاہ باز گشت
مسئلہ بے حد نازک ہے۔ ایک شخص اگر مسلمان ہونے کے باوجود ایسے عقیدے کو قبول کر لیتا ہے جو شریعت اسلامیہ کی رو سے وجہ ارتداد بنتا ہے۔ تو یہ شخص ابدی نجات سے یکسر محروم ہو جاتا ہے۔ اس کی تمام دینی مساعی رائیگاں جاتی ہیں۔ مسلمان عورت کے ساتھ اس کا نکاح فسخ ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے والدین کی وراثت سے محروم قرار پاتا ہے۔ اس کی نماز جنازہ میں کوئی مسلمان شریک نہیں ہوسکتا۔ اسے حرمین کی زیارت اور حدود حرمین میں داخلہ کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اس کے ہاتھ سے ذبح کئے ہوئے جانور کا گوشت حرام ہوگا۔ وہ اپنی مسلمان بچی کا شرعاً ولی نہیں رہ سکتا۔ کسی مسلمان عورت کا اس سے نکاح نہیں ہوسکتا اور مختصراً یہ کہ وہ کافرانہ عقیدے کو قبول کرنے کے جرم کی پاداش میں خاتم النبیینﷺ کی امت سے خارج ہو جائے گا اور اس سے بھی زیادہ اہم کہ اسے شرعی اصطلاح میں مرتد قرار دیا جائے گا اور اگر وہ کسی ایسی مملکت کا باشندہ ہوا۔ جس کے سربراہ اور اعضاء حکومت کے سچے مسلمان حریت کی نعمت سے مالامال اور ایمانی جرأت سے بہرہ