ور ہوئے تو وہ اس سے وہی معاملہ کریں گے جو شریعت اسلامی کی رو سے مرتد کے ساتھ ناگزیر ہے اور صحیح بات یہ ہے کہ ایسے مرتدین کی تعداد زیادہ ہو جائے تو جس ملک یا جن ممالک میں یہ لوگ بستے ہوں گے۔ وہاں بے شمار معاشرتی، اجتماعی، سیاسی اور قبائلی الجھنیں پیدا ہو جائیں گی۔ یہ تو ہوا مسئلے کا ایک رخ، دوسرا پہلو اس کا یہ ہے کہ اگر یہ فیصلہ غلط ہوا اور جس عقیدے یا سلسلہ ہائے عقائد کے قبول کرنے کے جرم میں اس شخص کو مرتد اور دائرہ امت سے خارج کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔ اگر یہ عقائد اسلامی شریعت کی رو سے ایسے نہیں ہیں۔ جنہیں کافرانہ عقائد کہا جاسکے تو یہ فیصلہ ہی غلط نہیں ہوگا۔ بلکہ اس کی تمام تر ذمہ داری فیصلہ صادر کرنے والوں پر عائد ہوگی کہ ایک مسلمان کو کافر قرار دے دیا اور یہ جرم بجائے خود بے حد سنگین ہے۔
ان ہر دو پہلوؤں اور اس فیصلے کے سنگین نتائج ہی کے شدید احساس کا تأثر متقاضی ہے کہ اس کتاب میں بیان کی گئی وجوہ کو یکجا واجمالی تکرار سے اس طرح پیش کر دی جائیں کہ زیربحث مسئلے کو اس کی حقیقی صورت چند منٹ صرف کر دینے سے سامنے آجائے اور ہر صاحب نظر منصف مزاج اور دین کی اہلیت کا شعور رکھنے والا مسلمان اپنی حقیقی اور عند اﷲ مسؤلیت اور ذمہ داری کو سمجھ لے اور قطعی رائے قائم کرنے کی فضا میسر آئے۔ یہ آخری سطور اسی تصور سے پیش کی جارہی ہیں۔ صورت واقعہ یہ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے جس دین کی بنیاد ڈالی اور اپنی نبوت کو جس انداز سے پیش کیا۔ اس کی رو سے قادیانی دین کے اہم اور بنیادی عقائد وافکار حسب ذیل ہیں۔ مرزاغلام احمد قادیانی کے بقول:
۱… آخری زمانہ میں جس رسول کے مبعوث ہونے کا وعدہ کیاگیا تھا۔ وحی الٰہی کی رو سے میں ہی وہ رسول ہوں اور اس امت میں نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیاگیا ہوں اور کہ میں محمد واحمد بھی ہوں۔۲… کفر کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تویہ کہ انسان اسلام ہی کا منکر ہو اور سرورکونینﷺ کی رسالت ہی سے انکار کر دے اور دوسرا یہ کہ مجھے نہ مانے۔ یہ دونوں قسم کے کفر درحقیقت ایک ہی قسم میں داخل ہیں۔
جو شخص مجھے نہیں مانتا وہ خدا اور رسول کو بھی نہیں مانتا اور اس سے اس کا ایمان سلب ہو جاتا ہے۔ اﷲتعالیٰ کو وہ جھوٹا مانتا ہے اور مجھے چھوڑ کر اسے پورا قرآن چھوڑنا پڑے گا اور میری تکذیب کر کے گویا اس نے سارے قرآن کی تکذیب کر دی اور وہ مسلمان نہیں رہا۔
۳… یہ دونوں عقیدے تو بنیاد واساس کی حیثیت رکھتے تھے اور ان امور ہی کی بناء پر