کی ہے۔ حضرت صاحب کا منشاء یہ نہیں تھا کہ نعوذ باﷲ حضرت مریم صدیقہ نہیں تھیں۔ بلکہ غرض یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو انسان ثابت کرے۔ مگر یہ تاویل سراسر باطل ہے۔ مرزاغلام احمد حضرت مریم کے بارے میں جو رویہ اختیار کئے رہے۔ صرف یہی نہیں کہ اس سے ابراہیم بقاپوری کی اس روایت کی تصدیق ہوتی ہے۔ بلکہ اس سے روزروشن کی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ مرزاقادیانی سیدہ مریم کے بارے میں قرآن مجید کے مؤقف کے خلاف محاذ آرا تھے اور انہوں نے ان پر وہ تمام تہمتیں خالص یہودیانہ جسارت کے انداز میں لگائیں جو یہود کا شیوہ تھا۔ وہ کہتے ہیں: ’’پانچواں قرینہ ان کے یعنی افغانیوں کے وہ رسوم ہیں۔ جو یہودیوں سے بہت ملتے ہیں۔ مثلاً ان کے بعض قبائل ناتہ اور نکاح میں کچھ چنداں فرق نہیں سمجھتے اور عورتیں اپنے منسوب سے بلاتکلف ملتی ہیں اور باتیں کرتی ہیں۔ حضرت مریم صدیقہ کا اپنے منسوب یوسف کے ساتھ قبل نکاح کے پھرنا اس اسرائیلی رسم پر پختہ شہادت ہے۔‘‘
(ایام الصلح ص۶۶، خزائن ج۱۴ ص۳۰۰ حاشیہ)
یہ تو تھا مرحلہ آغاز کہ حضرت مریم صدیقہ اپنے منسوب سے بلاتکلف ملاقات کرتیں۔ ان کے ساتھ پھرتیں اور باتیں کرتی تھیں۔ دوسرے مرحلہ کا ذکر ان شرمناک الفاظ سے شروع ہوتا ہے۔ ’’بزرگوں نے جب اصرار کر کے بسرعت تام مریم کا اس (یوسف نجار) سے نکاح کرادیا اور مریم کو ہیکل سے رخصت کرادیا تاکہ خدا کے مقدس گھر پر نکتہ چینیاں نہ ہوں۔ کچھ تھوڑے دنوں کے بعد ہی وہ لڑکا پیدا ہوگیا۔ جس کا نام یسوع رکھا گیا۔‘‘ (الحکم مورخہ ۲۴؍جولائی ۱۹۰۲ئ)
’’مفسد مفتری ہے وہ شخص جو مجھے کہتا ہے کہ میں مسیح ابن مریم کی عزت نہیں کرتا۔ بلکہ مسیح تو مسیح میں تو اس کے چاروں بھائیوں کی بھی عزت کرتا ہوں۔ کیونکہ پانچوں ایک ماں کے بیٹے ہیں۔ نہ صرف اس قدر بلکہ میں تو حضرت مسیح کی دونوں حقیقی ہمشیروں کو بھی مقدس سمجھتا ہوں۔ کیونکہ یہ سب بزرگ مریم بتول کے پیٹ سے ہیں اور مریم کی وہ شان ہے۔ جس نے ایک مدت تک اپنے تئیں نکاح سے روکا پھر بزرگان قوم نے نہایت اصرار سے بوجہ حمل کے نکاح کر لیا۔ گو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ برخلاف تعلیم تورات عین حمل میں کیونکر نکاح کیاگیا اور بتول ہونے کے عہد کو کیوں ناحق توڑا گیا اور تعدد ازدواج کی کیوں بنیاد ڈالی گئی۔ یعنی باوجود یوسف نجار کی پہلی بیوی ہونے کے پھر مریم کیوں راضی ہوئی کہ یوسف نجار کے نکاح میں آوے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ یہ سب مجبوریاں تھیں جو پیش آگئیں۔ اس صورت میں وہ لوگ قابل رحم تھے۔ نہ قابل اعتراض۔‘‘
(کشتی نوح ص۱۶، خزائن ج۱۹ ص۱۸)