مرزاغلام احمد قادیانی اور ان کی امت پر اس سنگین الزام کا ثبوت یہ ہے۔
قرآن مجید نبوت مسیح کا مصدق اور مرزاغلام احمد قادیانی مکذّب
مرزاغلام احمدقادیانی تسلیم کرتے ہیں کہ سیدنا مسیح ابن مریم علیہ الصلوٰۃ والسلام، اﷲ ذوالجلال کے نبی اور رسول تھے اور یہ بھی مانتے ہیں کہ قرآن شریف انہیں سچا قرار دیتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ یہود ان کی پیش گوئیوں پر ایسے سخت اعتراض کرتے ہیں جن کو ہم کسی طرح رفع نہیں کر سکتے۔
یہی نہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ صرف قرآن کے سہارے ہم نے سچے دل سے قبول کر لیا۔ مگر وہ دوسرے سانس یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تین پیش گوئیاں صاف طور پر جھوٹی نکلیں۔ ان کے یہ اعترافات اور انکار دونوں ایک ہی پیراگراف میں ملاحظہ فرمائیے۔
’’غرض قرآن شریف نے حضرت عیسیٰ کو سچا قرار دیا ہے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان کی پیش گوئیوں پر یہود کے سخت اعتراض ہیں۔ جو ہم کسی طرح ان کو رفع نہیں کر سکتے۔ صرف قرآن کے سہارے سے ہم نے مان لیا ہے اور سچے دل سے قبول کیا ہے اور بجز اس کے ان کی نبوت پر ہمارے پاس کوئی بھی دلیل نہیں۔ عیسائی تو ان کی خدائی کو روتے ہیں۔ مگر یہاں نبوت بھی ان کی ثابت نہیں ہوسکتی۔ ہائے کس کے آگے یہ ماتم لے جائیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تین پیش گوئیاں صاف طور پر جھوٹی نکلیں۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۱۳، خزائن ج۱۹ ص۱۲۱)
انہی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں وہ کہتے ہیں: ’’آپ کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے۔ تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زنا کار اور کسبی عورتیں تھیں۔ جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا۔ مگر شاید یہ بھی خدائی کے لئے ایک شرط ہوگی۔ آپ کا کنجریوں سے میلان اور صحبت بھی شاید اسی وجہ سے ہو کہ جدی مناسبت درمیان ہے۔ ورنہ کوئی پرہیزگار انسان ایک جوان کنجری کو یہ موقع نہیں دے سکتا کہ وہ اس کے سرپر اپنے ناپاک ہاتھ لگاوے اور زناکاری کی کمائی کا پلید عطر اس کے سر پر ملے اور اپنے بالوں کو اس کے پیروں پر ملے۔ سمجھنے والے سمجھ لیں کہ ایسا انسان کس چلن کا آدمی ہوسکتا ہے۔ بالآخر ہم لکھتے ہیںکہ ہمیں پادریوں کے یسوع اور اس کے چال چلن سے کوئی غرض نہ تھی۔ انہوں نے ناحق ہمارے نبی اکرمﷺ کو گالیاں دے کر ہمیں آمادہ کیا کہ ان کے یسوع کا تھوڑا سا حال ان پر ظاہر کریں۔‘‘
(ضمیمہ انجام آتھم ص۷،۸، خزائن ج۱۱ ص۲۹۱،۲۹۲)