:…
’’میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں۔ میں ان الہامات پر اسی طرح ایمان لاتا ہوں۔ جیسا کہ قرآن شریف پر اور خدا کی دوسری کتابوں پر اور جس طرح میں قرآن شریف کو یقینی اور قطعی طور پر خدا کا کلام جانتا ہوں۔ اسی طرح اس کلام کو بھی جو میرے پر نازل ہوتا ہے خدا کا کلام یقین کرتا ہوں۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۱۱، خزائن ج۲۲ ص۲۲۰)
قادیانی آرگن ’’الفضل‘‘ لکھتا ہے: ’’ان حوالہ جات سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود اپنے الہامات کو کلام الٰہی قرار دیتے تھے اور ان کا مرتبہ بلحاظ کلام الٰہی ہونے کے ایسا ہی ہے جیسا کہ قرآن مجید، تورات اور انجیل کا۔‘‘ (الفضل قادیان مورخہ ۱۳؍جنوری) مرزاقادیانی کے فرزند اور قادیانی امت کے دوسرے خلیفہ مرزامحمود احمد قادیانی کہتے ہیں: ’’اگر سچ پوچھو تو ہمیں قرآن کریم پر، رسول کریمﷺ پر بھی اسی کے ذریعہ ایمان حاصل ہوا۔ ہم قرآن کریم کو خدا کا کلام اس لئے یقین کرتے ہیں کہ اس کے ذریعہ آپ کی (یعنی مرزاقادیانی کی) نبوت ثابت ہوتی ہے۔ ہم محمدﷺ کی نبوت پر اس لئے ایمان لاتے ہیں کہ اس سے آپ کی نبوت کا ثبوت ملتا ہے۔ نادان ہم پر اعتراض کرتا ہے کہ ہم کیوں حضرت مسیح موعود کو نبی مانتے ہیں اور کیوں اس کے کلام کو خدا کا کلام یقین کرتے ہیں۔ وہ نہیں جانتا کہ قرآن کریم پر یقین ہمیں اس کے کلام کی وجہ سے ہوا ہے اور محمدﷺ کی نبوت پر یقین اس کی نبوت کی وجہ سے ہوا ہے۔‘‘
(الفضل قادیان مورخہ ۱۱؍جولائی ۱۹۲۵ئ)
یہ حقائق اتنے واضح تھے جن کے سامنے آنے کے بعد قادیانی امت کے دعویٰ ایمان واسلام کے بارے میں کسی شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی اور یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ان کا حقیقی ایمان تو مرزاغلام احمد قادیانی اور ان پر نازل شدہ کلام الٰہی پر ہے اور قرآن مجید کو وہ صرف اس لئے مانتے ہیں کہ اس سے مرزاغلام احمد قادیانی کی نبوت کا ثبوت ملتا ہے۔ اگر وہ قرآنی آیات سے ایسا استدلال نہ کر پاتے تو یہود ونصاریٰ کی طرح وہ منکر قرآن ہوتے۔
یہ تو قرآن مجید اور مرزاغلام احمد قادیانی کے ادّعا کے مطابق ان پر نازل شدہ وحی کے بارے میں قادیانیوں کا عمومی طرز فکر وعمل تھا۔ اس سے آگے بڑھ کر انہوں نے یہ روش اختیار کی کہ جن عقائد وتصورات کو مرزاغلام احمد قادیانی اپنی بداعتقادی اور بالخصوص یہود وہنود سے طبعی قرب اور ان کی کتب کے مطالعہ سے متأثر ہوکر بطور عقیدہ قبول کر چکے تھے۔ انہوں نے ان عقائد کے خلاف قرآن مجید کے مؤقف کو مسترد کر دیا اور ان آیات سے انکار کے مرتکب ہوئے جو ان کے باطل تصورات وعقائد کو رد کرتی اور صحیح افکار وعقائد کو قبول کرنے کی دعوت دیتی تھیں۔