نجات پانا قبول کیا گیا اور مسیح کے وقت قطعاً جہاد کا حکم موقوف کر دیا گیا۔‘‘
(اربعین نمبر۴ ص۱۳، خزائن ج۱۷ ص۴۴۳ حاشیہ)
عبرتناک پہلو اس عبارت کا ملاحظہ ہو کہ فرعون کا یہ ظلم کہ اس نے بنی اسرائیل کے متعلق یہ حکم جاری کر رکھا تھا کہ ان کے بچوں کو قتل کر دیا جائے اور بچیوں کو زندہ چھوڑ دیا جائے۔ مرزاغلام احمد قادیانی اس فرعونی حکم کو موسیٰ علیہ السلام کی وحی اور شریعت بتلاتے ہیں۔ یہ جہالت ہے یا فرعونیت کی حمایت؟ دونوں صورتوں میں انتہائی عبرت انگیز ہے۔
نصرت الٰہی ملاحظہ ہو کہ مرزاغلام احمد قادیانی نے اس موقع پر جہاد ایسے عظیم اسلامی رکن کی تنسیخ کے بارے میں جو موقف اختیار کیا۔ اس سے وہ تمام تاویلات وتحریفات حرفِ باطل ہوگئیں جو قادیانی انگریزی حکومت کے خاتمے کے بعد آج تک کرتے چلے آرہے ہیں۔ مرزاغلام احمد قادیانی جہاد کے بتدریج منسوخ ہونے کو تین ادوار اور تین نبوتوں کے عہد میں تقسیم کرتے ہیں۔ عہد نبوت موسیٰ علیہ السلام، عہد خاتم النبیینﷺ اور عہد مسیح موعود یعنی مرزاغلام احمد قادیانی پہلے شدت پھر تخفیف اور آخرکار تنسیخ جہاد اور اس تفصیل سے جہاں مرزاغلام احمد قادیانی کا مقام یہ متعین ہوا کہ انہوں نے شریعت محمدیہ کے بعض اہم احکام منسوخ کئے ہیں۔ وہاں یہ حقیقت بھی واضح کر دی کہ درحقیقت مرزاغلام احمد قادیانی بہاء اﷲ ایرانی کی طرح حضور خاتم النبیینﷺ کی نبوت کا عہد تیرہ سو سال تک محدود سمجھتے تھے۔ اگر ان کے دل میں یہ بات پوشیدہ نہ ہوتی تو وہ تنسیخ جہاد کو تین مستقل بالذات نبوتوں کے زمانوں میں منقسم نہ کرتے۔
مرزاغلام احمد قادیانی بصراحت کہتے ہیں کہ آج سے جہاد بند کر دیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو: ’’آج سے انسانی جہاد جو تلوار سے کیا جاتا تھا۔ خدا کے حکم کے ساتھ بند کیاگیا۔ اب اس کے بعد جو شخص کافر پر تلوار اٹھاتا اور اپنا نام غازی رکھتا ہے وہ اس رسول کریمﷺ کی نافرمانی کرتا ہے جس نے آج سے تیرہ سو برس پہلے فرمایا ہے کہ مسیح موعود کے آنے پر تمام تلوار کے جہاد ختم ہو جائیں گے۔ سو اب میرے ظہور کے بعد تلوار کا کوئی جہاد نہیں۔ ہماری طرف سے امان اور صلح کاری کا سفید جھنڈا بلند کیاگیا۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۹۵)
جہاد کا قائل اور مفتی، دشمن خدا
مرزاغلام احمد قادیانی کہتے ہیں:اب چھوڑ دو اے دوستو جہاد کا خیال دین کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال