حضور ملکہ قیصرہ ہند کے اس ’’مومن قانتاً اشد حباً لا ستعمار بریطانیہ‘‘ کے مظہر اتم کی آخری دل نوازی یا دل سپردگی کا اظہار اس جملہ سے ہوا۔
وہ کہتے ہیں: ’’میں دعا کرتا ہوں کہ خیروعافیت اور خوشی کے وقت میں خداتعالیٰ … خط کو حضور قیصرہ ہند دام اقبالہا کی خدمت میں پہنچا دے اور پھر جناب ممدوحہ کے دل میں الہام کرے کہ وہ اس سچی محبت اور سچے اخلاص کو جو حضرت موصوفہ کی نسبت میرے دل میں ہے۔ اپنی پاک فراست سے شناخت کر لیں اور رعیت پروری کی رو سے مجھے پررحمت جواب سے ممنون فرمائیں۔‘‘ (ستارہ قیصرہ ص۵، خزائن ج۱۵ ص۱۱۵)
ہم ان اقتباسات پر تبصرے کے بجائے صرف ان کے دوہرا دینے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ تاکہ اصحاب ذوق سلیم، بار محسوس نہ کریں۔
جہاد قطعاً موقوف ہوگیا
مرزا غلام احمد قادیانی نے جہاد کی تنسیخ کے لئے وہی طریق بیان اختیار کیا جو تمام دوسرے اہم مسائل میں ان کی دجالیت کا مظہر تھا اور قادیانی چونکہ اس ذہن وکردار کا عکس ثانی ہیں۔ اس لئے انہوں نے بھی تاویل وتحریف اور انکار واقرار کے حربوں سے اپنے آپ کو خلق خدا کو دھوکے دینے کی روش بحال رکھی۔
لیکن تمام دوسرے مواقع کی طرح یہاں بھی اﷲ رب العزت کا تصرف ظہور پذیر ہوا اور خود مرزاغلام احمد قادیانی اور اہم قادیانی قائدین کے اپنے قلم ہی سے حقائق بیان ہوگئے اور قرآن کا نوشتہ صادق ہوا۔ ’’قد بدت البغضاء من افواہہم وما تخفی صدورہم اکبر (آل عمران:۱۱۸)‘‘ {بغض وبدباطنی ان کے منہ سے صادر کلمات سے کھل کر سامنے آگئی اور جوان کے سینوں میں پوشیدہ ہے۔ وہ اس سے کہیں زیادہ بھیانک ہے۔}
مرزاغلام احمد قادیانی نے جہاد کے موقوف ہونے کے لئے جو تفصیل بیان کی وہ عظمت اسلام کی ایک شہادت ہے کہ مجرم خود اپنے لئے تعزیرات کے نفاذ کے محرکات پیش کرتا ہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں: ’’جہاد یعنی دینی لڑائیوں کی شدت کو خداتعالیٰ آہستہ آہستہ کم کرتا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ کے وقت میں اس قدر شدت تھی کہ ایمان لانا بھی قتل سے بچا نہیں سکتا تھا اور شیرخواہ بچے بھی قتل کئے جاتے تھے۔ پھر ہمارے نبیﷺ کے وقت میں بچوں اور بوڑھوں اور عورتوں کو قتل کرنا حرام کیاگیا اور پھر بعض قوموں کے لئے بجائے ایمان کے صرف جزیہ دے کر مواخذہ سے