یہ ساری گرم جوشی اور سراسیمگی کس مقصد کے لئے؟ صرف اس ایک مقصد عظیم کے لئے کہ اس عاجز (مرزاقادیانی) کو وہ اعلیٰ درجہ کا اخلاص اور محبت اور جوش اطاعت جو حضور ملکہ معظمہ اور اس کے معزز افسروں کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کے تقاضے پورے ہوں اور انہی صفات ایمانیہ کا حوالہ دے کر ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی جائے اور ان سے اس عرضداشت کو قبول کرنے کی التجا کی جائے کہ وہ میری (مرزاغلام احمد قادیانی کی) خدمات کا اعتراف کریں اور اس عرضداشت اور التجاء کے جواب سے مجھے عزت دی جائے۔ ایسا ہو جائے تو یہ امید سے بڑھ کر میری سرفرازی ہوگی۔ مگر آہ! کہ یہ امید برنہ آئی اور ملکہ برطانیہ کے ہاں سے نہ صرف یہ کہ خوشنودی کا کوئی پروانہ صادر نہیں ہوا۔ بلکہ یہ بھی نہ ہوسکا کہ مرزاغلام احمد قادیانی کے بے نظیر خدمات کی رسید بھی نہ دی گئی۔ مگر قربان جائیے خلوص اور العمل لوجہ الا نکلیز ولا بتغاء مرضات ملکہ برطانیہ کا جذبہ صادقہ کہ حرف شکایت اگر زبان پر آیا بھی تو اس سے شان عبودیت میں مزید جلا پیدا ہوا اور شکوے نے ازدیاد اخلاص کی صورت اختیار کر لی اور انہوں نے حضور ملکہ قیصرہ ہند کی خدمت عالیہ میں بصد عجز والحاح عرض کیا۔‘‘ ’’میں اپنی جناب ملکہ معظمہ کے اخلاق وسیعہ پر نظر رکھ کر ہر روز جواب کا امیدوار تھا اور اب بھی ہوں۔ (مگر یہ سیلاب ایمان واعتماد تھمنے میں نہیں آتا۔ وہ مزید عرض گذار ہوتے ہیں) میرے خیال میں یہ غیرممکن ہے کہ میرے جیسے دعاگو کا وہ عاجزانہ تحفہ جو بوجہ کمال اخلاص، خون دل سے لکھاگیا تھا۔ اگر وہ حضور ملکہ معظمہ قیصرہ ہند دام اقبالہا کی خدمت میں پیش ہوتا تو اس کا جواب نہ آتا بلکہ ضرور آتا، ضرور آتا۔‘‘ (ستارہ قیصریہ ص۵، خزائن ج۱۵ ص۱۱۵)
دل کی دنیا کا حال بھی عجیب ہے۔ مگر مرزاغلام احمد قادیانی اس معاملے میں عجیب وغریب کیفیات کے حامل ہیں۔ جہاں کہیں ان کا دل اٹکا وہ آخری حدود کو پھاندے۔ یہاں بھی ان کا یہی حال ہے۔ حضور قیصرہ ہند سے سرگوشی کا موقعہ ملا ہے تو کیوں دل بلیوں نہ اچھلے۔ چنانچہ یہ بے قابو …… اچھلا اور خون کے چھینٹے یوں بکھرے۔
ضرور آتا ضرور آتا کے بعد فرماتے ہیں: ’’مجھے بوجہ اس یقین کے پررحمت اخلاق پر کمال وثوق سے حاصل ہے۔ اس یاددہانی کے عریضہ کو لکھنا پڑا اور اس عریضہ کو نہ صرف میرے ہاتھوں نے لکھا ہے بلکہ میرے دل نے یقین کا بھرا ہوا زور ڈال کر ہاتھوں کو اس پر ارادت خط لکھنے کے لئے چلایا ہے۔‘‘ (ستارہ قیصرہ ص۵، خزائن ج۱۵ ص۱۱۵)