ارسال کیا تھا اور مجھے قوی یقین تھا کہ اس کے جواب سے مجھے عزت دی جائے گی اور امید سے بڑھ کر میری سرفرازی کا موجب ہوگی… مگر یہ نہایت تعجب ہے کہ ایک کلمۂ شاہانہ سے بھی ممنون نہیں کیاگیا اور میرا کانشنس ہر گز اس بات کو قبول نہیں کرتا کہ وہ ہدیہ عاجزانہ یعنی رسالۂ تحفہ قیصریہ حضور ملکہ معظمہ میں پیش ہوا ہو اور پھر میں اس کے جواب سے ممنون نہ کیا جاؤں۔ یقینا کوئی اور باعث ہے جس میں جناب ملکہ معظمہ قیصرہ ہند دام اقبالہا کے ارادہ اور مرضی اور علم کو کچھ دخل نہیں۔ لہٰذا حسن ظن نے جو میں حضور ملکہ معظمہ دام اقبالہا کی خدمت میں رکھتا ہوں۔ دوبارہ مجھے مجبور کیا کہ میں اس تحفہ قیصریہ کی طرف جناب ممدوحہ کو توجہ دلاؤں اور شاہانہ منظوری کے چند الفاظ سے خوشی حاصل کروں۔ اسی غرض سے یہ عریضہ روانہ کرتا ہوں۔‘‘ (ستارہ قیصریہ ص۲، خزائن ج۱۵ ص۱۱۲)
اس پر بھی اطمینان نہ ہو اور دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر برطانوی حکمران ملکہ سے کہتے ہیں:
وسیع اخلاق ملکہ معظمہ سے ہر روز جواب کا منتظر
جناب ملکہ معظمہ کے اخلاق وسیعہ پر نظر رکھ کر ہر روز جواب کا منتظر: ’’میں نے (مرزاقادیانی نے) تحفہ قیصریہ میں جو حضور قیصرہ ہند کی خدمت میں بھیجا گیا یہی حالات اور خدمات اور دعوات گذارش کئے تھے اور میں اپنی جناب ملکہ معظمہ کے اخلاق وسیعہ پر نظر رکھ کر ہر روز جواب کا منتظر تھا اور اب بھی ہوں۔ میرے خیال میںیہ غیرممکن ہے کہ میرے جیسے دعاگو کا وہ عاجزانہ تحفہ جو بوجہ کمال اخلاص خون دل سے لکھا گیا تھا۔ اگر وہ حضور ملکہ معظمہ قیصرۂ ہند دام اقبالہا کی خدمت میں پیش ہوتا تو اس کا جواب نہ آتا۔ بلکہ ضرور آتا، ضرور آتا۔ اس لئے مجھے بوجہ اس یقین کے کہ جناب قیصرۂ ہند کے پررحمت اخلاق پر کمال وثوق سے حاصل ہے۔ اس یاددہانی کے عریضہ کو لکھنا پڑا اور اس عریضہ کو نہ صرف میرے ہاتھوں نے لکھا ہے۔ بلکہ میرے دل نے یقین کا بھر ہوا زور ڈال کر ہاتھوں کو اس پر ارادت خط کے لکھنے کے لئے چلایا ہے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ خیروعافیت اور خوشی کے وقت میں خداتعالیٰ اس خط کو حضور قیصرہ ہند دام اقبالہا کی خدمت میں پہنچا دے اور پھر جناب ممدوحہ کے دل میں الہام کرے کہ وہ اس سچی محبت اور سچے اخلاص کو جو حضرت موصوفہ کی نسبت میرے دل میں ہے۔ اپنی پاک فراست سے شناخت کر لیں اور رعیت پروری کی رو سے مجھے پررحمت جواب سے ممنون فرمائیں۔‘‘ (ستارہ قیصریہ ص۴، خزائن ج۱۵ ص۱۱۵)
مرزاغلام احمد قادیانی نے ان تحریروں میں برملا اظہار کیا کہ: ’’جہاد کی مسلسل مخالفت جہاد کو منسوخ قرار دینے اور آگے چل کر جہاد کو بیہودہ رسم کہنے، جہاد کے قطعی حرام ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں تک شدت کہ جو شخص جہاد کا قائل اور مفتی ہو وہ منکر رسول اور دشمن خدا بھی ہے۔