جانتا ہوں کہ ان کتابوں کا بہت سا اثر اس ملک پر بھی پڑا ہے اور جو لوگ میرے ساتھ مریدی کا تعلق رکھتے ہیں وہ ایک جماعت تیار ہوتی جاتی ہے کہ جن کے دل اس گورنمنٹ کی سچی خیرخواہی سے لبالب ہیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۳۶۷)
وہ تنسیخ جہاد میں اتنے پرجوش تھے کہ انہوں نے برملا کہا: ’’میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں کہ اگر وہ اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔ میں نے ان کتابوں کو تمام ممالک عرب اور مصر اور شام اور کابل اور روم تک پہنچایا ہے۔ میری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ مسلمان اس ریاست کے سچے خیرخواہ ہو جائیں اور مہدی خونی اور مسیح خونی کی بے اصل روایتیں اور جہاد کے جوش دلانے والے مسائل جو احمقوں کے دلوں کو خراب کرتے ہیں۔ ان کے دلوں سے معدوم ہو جائیں۔‘‘
(تریاق القلوب ص۱۵، خزائن ج۱۵ ص۱۵۵)
مرزاغلام احمد قادیانی نے بیسیوں مرتبہ تنسیخ جہاد کی اس مہم کے حوالہ سے گورنمنٹ برطانیہ کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی اور برطانوی استعمار کی خوشنودی حاصل کرنے کی ذلت آفریں کوشش میں انتہائی خوشامدانہ الفاظ استعمال کئے۔ آخرکار ان کی یہ تمنا بر آئی اور ان کی ان خدمات جلیلہ کا وہ شیریں ثمر ہاتھ لگا جو ان کی زندگی کی سب سے بڑی آرزو تھی۔ مرزاغلام احمد قادیانی کے فرزند صاحبزادہ بشیر احمد اپنی مشہور تصنیف ’’سیرۃ المہدی‘‘ میں اس تکمیل کی آرزو کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں۔
’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ کتاب پنجاب چیفس‘‘ یعنی تذکرہ رؤسا پنجاب… (میں) ہمارے خاندان کے متعلق مندرجہ ذیل نوٹ درج ہے۔ اس جگہ بیان کرنا ضروری ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی جو غلام مرتضیٰ کا چھوٹا بیٹا تھا۔ مسلمانوں کے ایک بڑے مشہور مذہبی سلسلہ کا بانی ہوا جو احمدیہ سلسلہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس نے بموجب مذہب اسلام مہدی یا مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا۔ مرزاعربی، فارسی اور اردو کی بہت سی کتابوں کا مصنف تھا۔ جن میں اس نے مسئلہ جہاد کی تردید کی تھی اور یقین کیا جاتا ہے کہ ان کتابوں نے مسلمانوں پر معتدبہ اثر کیا ہے۔‘‘
(سیرۃ المہدی حصہ اوّل ص۱۳۷،روایت نمبر۱۳۴)
اس سلسلہ میں مرزاغلام احمد قادیانی نے کن کن رذالتوں کو اختیار کیا۔ کس طرح جہاد میں مصروف مسلمانوں کی مخبری کی، کس لجاجت اور ہر شریف وحریت پسند انسان کے نزدیک قابل نفرت الفاظ سے حرمت جہاد کے تصور کو عام کرنے کی تفصیلات انگریزوں کے سامنے باربار پیش