نے تم میں سے ان لوگوں کو چھانٹا ہی نہیں جنہوں نے جہاد کیا اور انہوں نے اﷲ، اس کے رسول اور اصحاب پر ایمان کے علاوہ کسی کو اپنا ولی سرپرست محرم راز اور معتمد نہیں بنایا اور اﷲ تمہارے اعمال سے بخوبی آگاہ ہے۔}
۲… ’’وجاھدوا فی اﷲ حق جہادہ ہو اجتبا کم وما جعل علیکم فی الدین من حرج ملۃ ابیکم ابراہیم (الحج:۷۸)‘‘ {اور جہاد کرو اﷲ کے دین اور اس کے لئے خالص ہونے اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے جیسا کہ جہاد کا حق ہے۔ اس نے تمہیں اس کام کے لئے چن لیا اور دین میں تمہارے لئے کوئی حرج نہیں۔}
۳… ’’قل ان کان آباء کم وابناء کم واخوانکم وازواجکم وعشیرتکم واموال ن اقترفتموھا وتجارۃ تخشون کسادھا ومساکن ترضونہا احب الیکم من اﷲ ورسولہ وجہاد فی سبیلہ فتربصوا حتیٰ یأتی اﷲ بامرہ واﷲ لا یہدی القوم الفاسقین (التوبہ:۲۴)‘‘ {ان سے کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ، بھائی، بیٹے، بیویاں، تمہارے خاندان اور وہ مال جو تم نے کمایا۔ وہ تجارت جس کی کساد بازاری کا اندیشہ تمہیں لگارہتا ہے اور وہ محلات ومکانات جو تمہیں پسند ہیں۔ اگر یہ سب کچھ تمہیں اﷲ اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ عزیز ہیں تو انتظار کرو۔ یہاں تک کہ اﷲ اپنا فیصلہ صادر فرمادے اور اﷲ بدعہدوں کو نعمت ہدایت سے سرفراز نہیں فرماتے۔}
تنسیخ جہاد کا پس منظر مرزاغلام احمد قادیانی کے الفاظ میں
عظمت جہاد کے بارے میں اس قرآنی بیان کو ذہن میں محفوظ رکھتے ہوئے مرزاغلام احمد قادیانی کے فکر وعمل کا جائزہ لیجئے۔ مناسب ہوگا کہ تنسیخ جہاد کی وضاحت سے قبل، مسئلہ جہاد کے سلسلے میں مرزاغلام احمد قادیانی کے اخلاقی کردار اور اخلاص نیت کے بارے میں مثلاً انہی کے قلم سے صادر حقائق کی ایک جھلک دیکھ لی جائے۔ انہوں نے کہا: ’’میں بذات خود سترہ برس سے سرکار انگریزی کی ایک ایسی خدمت میں مشغول ہوں کہ درحقیقت وہ ایک ایسی خیرخواہی گورنمنٹ عالیہ کی مجھ سے ظہور میں آئی ہے کہ میرے بزرگوں سے زیادہ ہے اور وہ یہ کہ میں نے بیسیوں کتابیں عربی اور فارسی اور اردو میں اس غرض سے تالیف کی ہیں کہ اس گورنمنٹ محسنہ (برطانیہ) سے ہرگز جہاد درست نہیں۔ بلکہ سچے دل سے اطاعت کرنا ہر ایک مسلمان کا فرض ہے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۳۶۶)
’’چنانچہ میں نے یہ کتابیں بصرف زر کثیر چھاپ کر بلاد اسلام میں پہنچائی ہیں اور میں