جائز نہیں۔ لیکن صرف اسی وقت جب یہ جماعت اس کلمہ کفر سے بے خبر ہو یا علم واطلاع کے بعد اس کلمہ کفر کی تردید کی ہو۔ مگر یہاں صورتحال اس سے یکسر مختلف ہے۔
ہوا یہ کہ زین العابدین ولی اﷲ شاہ بجائے خود قادیانی تنظیم کے اہم رکن تھے۔ وہ مرکزی دعوت وتبلیغ کے ناظر تھے۔ ثانیاً انہوں نے یہ تقریر ۱۹۳۴ء کے جلسہ سالانہ قادیان میں کی۔ جسے اس جلسہ میں شریک تمام قادیانیوں نے سنا اور تیسری یہ بات کہ اس جلسہ کی صدارت آنجہانی مرزابشیرالدین محمود کر رہے تھے۔ جو قادیانیوں کے امیر المؤمنین بھی تھے اور خلیفہ الرسول بھی۔ رابعاً یہ کہ ازاں بعد یہ تقریر کتابی صورت میں شائع ہوئی۔ اسی کتاب کے ٹائٹل پر درج ہے۔ ’’تقریر دل پزیر جناب سید زین العابدین ولی اﷲ شاہ صاحب ناظر دعوت وتبلیغ برموقعہ جلسہ سالانہ ۱۹۳۴ئ۔‘‘ (اسمہ احمد ٹائٹل پیج)
یہ جلسہ جیسا کہ ابھی عرض کیاگیا۔ اس وقت کے قادیانی خلیفہ مرزامحمود کے زیراہتمام اور انہی کی صدارت میں ہوا۔ اس تقریر کا محرک ایک یہ بھی تھا کہ مرزامحمود اسمہ احمد کی پیشین گوئی کا مصداق مرزاغلام احمد کو ثابت کر رہے تھے اور لاہوری جماعت کے اکابر اس پر تنقید کر رہے تھے۔ زین العابدین صاحب نے یہ تقریر اس لئے بھی کی کہ مرزامحمود کی تائید بھی ہو اور مخالفین کا جواب بھی دیا جائے۔ چنانچہ اس کتاب کے دیباچہ میں مؤلف نے اس کا ذکر بھی کیا کہ وہ کہتے ہیں۔ ’’حضرت خلیفہ المسیح (مرزامحمود) ایدہ اﷲ بنصرہ العزیز کی اس رائے پر کہ اسمہ احمد کی پیشین گوئی سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں۔ جرح کرتے ہوئے (مولوی محمد علی اور ان کے رفقاء نے استہزاء سے بہت کام لیا ہے… اگر) مولوی (محمد علی) میری اس تقریر کو بغور پڑھیں گے جو میں نے اپنے بیان میں ملحوظ رکھی ہے تو میں امید کرتا ہوں کہ وہ اپنے چیلنج کا صحیح جواب اس میں پالیں گے۔‘‘ (اسمہ احمداندرونی صفحہ ٹائٹل)
اس اہمیت کی کتاب شائع ہوئی اور آج تک کسی بھی قادیانی نے ان کفریہ کلمات سے بریت کا اعلان نہیں کیا اور مزید یہ کہ قادیانی نبوت وخلافت کی پوری تاریخ اس قسم کے کافرانہ عقائد سے بھری پڑی ہے اور حضورﷺ کی شان میں گستاخیاں، مرزاقادیانی کے عمومی الہامات سے خطبہ الہامیہ تک مسلسل جاری ہیں۔ بنابریں یہ کفر پوری قادیانی امت کا عقیدہ ہے اور اس کی بناء پر اسے کافر قرار دیے بغیر چارہ نہیں۔ یہ ہے قادیانی متنبی اور ان پر ایمان لانے والے کے کافر ہونے کی چودھویں دلیل قاطع ہے۔