قرآنی شریعت کو منسوخ قرار دیں تو بھی مجھے انکار نہ ہو
مرزاغلام احمد قادیانی نے جو امت تیار کی۔ اﷲ غیور نے اس کے اہم افراد کے دل مسخ کر دئیے اور وہ تمام گمراہ امتوں اور دین سے منحرف سرکشوں کی طرح ہمیشہ کے لئے ہدایت الٰہیہ سے محروم ہوگئے اور ان کے ایمان واسلام کی بنیاد نہ قرآن مجید رہا نہ امام الانبیائﷺ کی احادیث، انہوںنے مرزاقادیانی کو مانا اور وہی ان کے حقیقی مرکز ومحور بنے اور ایسا ہونا باعث تعجب نہیں۔ اوّلاً تو نبوت کا دعویٰ اور اسے قبول کر لینا۔ اسی کا منطقی تقاضا یہ ہے کہ حق وباطل کا معیار اس نئے نبی کی وحی یا الہام ہی ہو۔ ثانیاً مرزاغلام احمد قادیانی نے ہوس جاہ وعزت میں مبتلا ہوکر قادیانیوں کی تربیت ہی اس انداز سے کی کہ وہ اب مرزاقاددیانی کے سوا کسی کی بات کو اہمیت نہ دیں۔ چنانچہ یہ جو بعض اہم اور ممتاز قادیانیوں نے کہا کہ وہ اگر قرآن مجید کو مانتے ہیں تو صرف اس لئے کہ قرآن مجید سے مرزاغلام احمد قادیانی کی نبوت کا ثبوت ملتا ہے۔ باالفاظ دیگر اگر یہ نہ ہوتا تو انہیں قرآن مجید سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ان ہر دو اسباب سے پیدا ہونے والے ذہن کی ایک عبرت انگیز مثال قادیانی امت کے خلیفہ اوّل، حکیم نورالدین ہیں۔ حکیم صاحب لکھے پڑھے ہی نہیں ذی علم انسان تھے۔ لیکن جب مرزاغلام احمد قادیانی کے چنگل میں پھنسے تو ہر اس منزل کو طے کیا جو ضلال بعید کا شکار ہونے والوں کے لئے مقرر ہے۔
حکیم نورالدین کے بارے میں مرزاغلام احمد قادیانی کے فرزند، مرزابشیر احمد لکھتے ہیں: ’’مولوی صاحب (حکیم نورالدین) فرمایا کرتے تھے… کہ یہ تو صرف نبوت کی بات ہے۔ میرا ایمان تو یہ ہے کہ اگر حضرت مسیح (مرزاغلام احمد قادیانی) صاحب شریعت نبی ہونے کا دعویٰ کریں اور قرآنی شریعت کو منسوخ قرار دیں تو بھی مجھے انکار نہ ہو۔ کیونکہ جب ہم نے آپ کو واقعی صادق اور منجانب اﷲ پایا ہے تو اب جو بھی آپ فرمائیں گے وہ ہی حق ہوگا۔ خاکسار (مرزابشیراحمد) عرض کرتا ہے کہ واقعی جب ایک شخص کا اﷲتعالیٰ کی طرف سے ہونا یقینی دلائل کے ساتھ ثابت ہو جائے تو پھر اس کے کسی دعویٰ میں چوں چراں کرنا باری تعالیٰ کا مقابلہ کرنا ٹھہرنا ہے۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ اوّل ص۹۹، روایت نمبر۱۰۹)
اس نوع کی مثالوں نے مرزاغلام احمد قادیانی کو یہ جرأت دلائی کہ وہ کھلم کھلا اسلامی شریعت کو منسوخ کرنے کے سلسلے کا آغاز کریں اور انہوں نے جہاد ایسے عظیم مسئلہ کو سب سے پہلا ہدف بنایا۔ فاعتبروا یا اولیٰ الابصار!