ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
بالذات تھوڑا ہی ہیں ہاں مقصود کے معین ہیں ـ اصل چیز تو مقصود تک پہنچ جانا ہے ـ ایک اور مثال یاد آئی پہلے زمانہ میں ریل موٹر ، ہوائی جہاز نہ تھے تو لوگ چھکڑوں اور بہلیوں سے سفر کرتے تھے کس قدر دشواریاں ہوتی تھیں وقت صرف ہوتا تھا راستہ میں خطرات کا سامنا ہوتا تھا بڑا سفر مہینوں میں طے ہوتا تھا اب ریل موٹر ، ہوائی جہاز کی بدولت ہر طرح پر سفر میں سہولتیں پیدا ہو گئیں ـ اب ایک شخص ہے کہ وہ اس سہولت کوچھوڑ کر دشواری کو پسند کرے تو کیا اس کومحمود کہیں گے اگر کوئی تحکم کی راہ سے اس کو ہی محمود کہے تو اس کا کسی کے پاس علاج نہیں ـ ملفوظ 87: آجکل کی خوش اخلاقی اور حضرت کی دارد گیر ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا ! کہ لوگ میرے متعلق چاہتے ہیں کہ خوش اخلاقی اختیار کرے اور خوش اخلاقی بھی وہ جو آجکل مروج ہے مجھ سے یہ خوش اخلاقی نہیں ہوتی اس ہی وجہ سے لوگ مجھ سے خفا ہیں مگر میرا ہی کیا نقصان ہے ہاں نفع تو ہے کہ بد فہموں سے نجات ملی اگر میرا طرز پسند نہیں تو میں بلانے تو نہیں جاتا مت آؤ بہت پیر دنیا میں خوش اخلاق ہیں وہاں جاؤ وہاں آؤ ـ آؤ بھگت ہوگی ـ اعزاز و احترام ہوگا ـ بدتہذیبی پر روک ٹوک نہ ہوگی اعمال شنیعہ پر محاسبہ نہ ہوگا ـ اور یہاں پر تو یہی ہے اگر سو دفعہ خوشی ہو آؤ ورنہ مت آؤ خوب کہا ہے ؎ ہاں وہ نہیں وفا پرست جاؤ وہ بے وفا سہی ٭ جس کو ہو جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں فرمایا کہ یہاں پر تعلق رکھنے میں اول اول تو وحشت ہوتی ہے پھر مارے نہیں نکلتے بھگائے نہیں بھاگتے واقعی محبت ایسی ہی چیز ہے اس میں ایسی ہی ترقی ہو جاتی ہے ؎ یا رب چہ چشمہ ایست محبت کہ من ازاں ٭ یک قطرہ آب خور دم و دریا گریستم ( اے اللہ ! محبت کیسا چشمہ ہے کہ میں نے ایک قطرہ پیا ـ اور آنکھوں سے دریا بپا دئیے ) ـ ملفوظ 88: عدم مناسبت ، جدائی کا سبب بنتی ہے ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت جو لوگ سمجھدار نہیں ان کا اس میں کیا قصور ہے فرمایا کہ میں اس پر مواخذہ نہیں کرتا ہاں کم سمجھوں اور بد فہموں میں تعلق رکھنا نہیں چاہتا اس لئے کہ