ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
باقی ہم غریب لوگ تو غریب آدمی بھنگی چماروں سب میں ملے جلے جا رہے ہیں مگر گاڑی کے وقت انشاء اللہ اسٹیشن پر سب ایک ہی جگہ ہوں گے غریب آدمیوں کے ساتھ گذرنے کے مناسب یاد آ گیا کہ میں ریل کے تیسرے درجہ میں سوار ہونے کو ترجیح دیتا ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تیسرے درجہ میں بے تکلف سفر ہوتا ہے نہ اس درجہ میں خصوصیت کے ساتھ کوئی ایسا شخص ہوتا ہے کہ جس کی وجہ سے تکلیف کیا جائے بلکہ ہر قسم کے ہر مذاق کے لوگ ہوتے ہیں کوئی کوٹ پتلون والے بھی دھوتی بند بھی پاجامہ والے بھی کوئی ہنس رہا ہے کوئی رو رہا ہے کوئی گا رہا ہے کوئی بجا رہا ہے ایک عجیب و غریب منظر ہوتا ہے بخلاف فرسٹ کلاس سکینڈ کلاس انٹر کلاس کے کہ سب منہ چڑھائے بیٹھے رہتے ہیں ایک سے ایک کلام نہیں کر سکتا ـ ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت تیسرے درجہ میں بعض گنوار ایسے ہوتے ہیں کہ وہ ننگے ہوتے ہیں گھٹنے اور زانو کھلے ہوتے ہیں فرمایا پھر کیا ہوا اگر بلا قصد نظر پڑ بھی جائے تو ہم کو کوئی گناہ تھوڑا ہی ہوتا ہے خود اس ننگے کو ننگ آنا چاہیئے ـ ایک مرتبہ میرے بھائی اکبر علی مرحوم نے مجھ سے کہا کہ اب تمہاری ہستی ایسی نہیں کہ تم ریل کے تیسرے درجہ میں سفر کرو میں نے کہا کہ فلاح وزیر اعظم انگریز سے کسی نے سوال کیا تھا کہ آپ تیسرے درجہ میں کیوں سفر کیا کرتے ہیں کیا عجیب جواب دیا بڑے دماغ کا آدمی تھا دنیا کے کاموں میں ایک خاص ملکہ رکھتا تھا کہتا ہے کہ چونکہ چوتھا درجہ نہیں ہے اسلئے تیسرے درجہ میں سفر کرتا ہوں اسکے بعد تجربات کی بناء پر بھائی صاحب کی رائے بھی بدل گئی تھی اور وہ خود بھی تیسرے درجہ میں سفر کرنے لگے تھے ایک بات یہ ہے کہ تیسرے درجہ میں وہ لوگ ہوتے ہیں جو ہماری رعایت کرتے ہیں اور سکینڈ فرسٹ میں وہ ہوتے ہیں جن کی ہمیں رعایت کرنی پڑتی ہے بڑی ہی کلفت ہوتی ہے جیسے کوئی قید کر دیتا ہے تو ان صوفیوں کے اور ہمارے سفر میں بس فرق یہ ہے کہ ہمارا سفر بے تکلف اور با نمک بامزہ اور ان کا سفر با تکلف اور بے نمک بے مزہ ـ ملفوظ 370: فرسٹ کلاس میں سفر کرتے ہوئے ایک صاحب کا واقعہ ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ فرسٹ کلاس سکنڈ کلاس کے درجوں میں بعض اوقات