ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
پھر دوسری آیت کا شان نزول فرمایا کہ ابو رافع ایک صحابی ہیں ان کو ایک بار یہ غم ہوا کہ یہاں تو جب چاہتے ہیں حضوراقدسِؐ کے دیدار سے مشرف ہو جاتے ہیں مگر جنت میں آپ بڑے درجہ میں ہوں گے اور ہم چھوٹے درجہ میں جہاں رسائی بھی نہ ہوگی وہاں کس طرح دیدار میسر ہوگا اور اس خیال سے ان کو بے حد قلق ہوا ـ اس پر یہ آیت نازل ہوئی جب انہوں نے یہ سنا تو بے حد خوش ہوئے کہ الحمداللہ جنت میں بھی حضورؐ کی زیارت کیا کریں گے اسی طرح دوسرے دوستوں سے جن کا ذکر صدیقین و شہداء وصالحین میں ہے ملا کریں گے ـ ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت اس صورت میں تو کم درجہ والے بڑے درجوں میں پہنچ جائیں گے فرمایا کہ پہنچ جائیں گے تو حرج اور نقص کیا واقع ہوا یہاں پر بھی تو ایسا ہوتا ہے کہ کم درجہ والے بڑے درجوں والوں کے پاس ملنے کے لیے پہنچ جاتے ہیں ـ یہاں پر معیت کے وہ معنی نہیں جو آپ سمجھے کہ اس درجہ پر مستقلا پہنچ جائیں گے ـ اب فرمائیے کیا شبہ ہے عرض کیا کہ اب کوئی شبہ نہیں رہا ـ عرض کیا کہ جنت میں پہنچ کر حسرت ہو گی اور جی چاہے گا کہ ہم بھی بڑے درجوں میں ہوتے فرمایا کہ جی ہی نہیں چاہے گا جو جس کے لیے تجویز ہو گی اس پر دل سے راضی رہے گا ـ ملفوظ 340: تفویض کی حقیقت اور دعا کا وجوب مبتدی اور منتہی حالتوں میں مشابہت ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ تفویض کے یہ معنی نہیں کہ مانگے نہیں تفویض کے معنی یہ ہیں کہ یہ عزم رکھے کہ اگر مانگنے پر بھی نہ ملا اس پر بھی رہوں گا تفویض کی حقیقت اگر نہ مانگنا ہوتا تو مانگنے کا امر نہ فرمایا جاتا یہ کوئی بہت باریک مسئلہ نہیں ہے ـ مانگنے کے لیے نص موجود ہے البتہ عین دعاء کے وقت بھی اس کا اسۓضار رہے کہ اگر مانگنے پر بھی نہ ملا تو بس اس پر دل سے راضی رہوں گا ـ یہ وہ مسئلہ ہے کہ بڑے بڑے فضلاء کو شبہ ہو گیا کہ دعاء اور تفویض کیسے جمع ہوں گے ـ مگر میں کہتا ہوں کہ خوب مانگے اور خوب الحاح وزاری کرے مانگنا ہرگز تفویض کے منافی نہیں مانگنے کو کون منع کرتا ہے اپنے بزرگوں کا بھی یہی معمول رہا ہے جو میں اس وقت