ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
ملفوظ 457: تجدید تصوف و سلوک ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ تصوف کو جاہل صوفیوں نے بدنام کیا ہے ورنہ تصوف تو وہ چیز ہےکہ بدوں اس کے نجات ہی مشکل معلوم ہوتی ہے جس کے ایک جزو میں تو یہ حکم ظاہر ہے یعنی اعمال مقصودہ ایک میں شبہ ہو سکتا ہے یعنی مجاہدات غیر مقصود سو حقیقت میں ایسے مجاہدات عبادات نہیں بلکہ معالجہ ہے اور ظاہر ہے کہ عادۃ بدون معالجہ بدنی کے جیسے ظاہری زندگی مشکل ہے ایسے ہی باطنی زندگی بدوں باطنی معالجہ کے دشوار ہے معالجہ کے جس قدر طرق ہیں وہ سب تدابیر کا درجہ رکھتے ہیں خود قربات نہیں ان تدابیر سے داعی الی الشر کو منکسر کرنا اور مطیع بنانا ہے - جب یہ معلوم ہو گیا تو اب بتلائیے ان کے متعلق کیا اعتراض رہا کیا جو چیزیں داعی الشر نہیں ان کے توڑنے اور کم کرنے کی ضرورت نہیں تدابیر کو خود بلا واسطہ قرب میں دخل نہیں ہاں بواسطہ قرب کے اسباب ہیں سو ان کو عبادت مقصودہ سمجھنا بے شک بدعت ہے اور جو معالجہ سمجھ کر کرے وہ بدعت کیسے ہو سکتا ہے اس کی مثال مسہل کی مثال ہے دیکھو اس میں طبیب چلنے پھرنے بولنے سونے کھانے پینے کی ممانعت کر دیتا ہے تو کیا ان تدابیر طبیہ کو کوئی بدعت کہہ سکتا ہے ایسے ہی طریق میں بھی ان مجاہدات کا درجہ تدابیر ہی کا ہے مثلا تقلیل الطعام تقلیل الکلام تقلیل المنام تدابیر طبیہ میں اور ان مجاہدات میں فرق کیا ہے - اگر ایک شخص نے مجاہدہ کر کے ملکات کو راسخ کر لیا کیا حرج ہوا - یہی تدابیر جاننا فن ہے جس سے اہل فن اور غیر اہل فن میں فرق ہو جاتا ہے اہل فن کی مثال فن داں کشتی گیر کی ہے جو ذرا سے پیچ میں گرا دیتا ہے اس طرح فن داں نفس اور شیطان کا مقالبہ داؤ سے کرتا ہے اور دوسرا شخص جو فن داں نہیں وہ گھونسوں سے دھکوں سے گراتا ہے جس میں مشقت ہوتی ہے تو اس صورت میں فن داں پر اعتراض ہی کیا ہے اور میں توسع کر کے کہتا ہوں کہ اللہ تعالی صاحب مجاہدہ کو جو تدابیر ہی کے درجہ میں لگا ہوا ہے گو وہ تدابیر فی نفسہ موجب اجر نہیں لیکن اس کی نیت پر وہی عبادت کا ثواب عطا فرمائیں گے اسلیے کہ گو وہ عبادت نہیں مگر عبادت کا مقدمہ تو