ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
چاہتا ہے اور وہ اس گاؤں اور اس کے راستہ سے دونوں سے بے خبر ہے ایک شخص اس کو بتاتا ہے کہ تیرا مقصود اور مطلوب جہاں تو جانا چاہتا ہے وہ ہے جہاں چراغ جل رہا ہے گو یہ بتلانے والا اس شخص کے ساتھ نہیں گیا اور نہ یہ ابھی تک اس گاؤں میں جو اس کا مقصود اورمطلوب ہے پہنچا مگر ایک معنی کر کہا جا سکتا ہے کہ بتلانے والے نے گاؤں تک پہنچا دیا اس لئے کہ بڑی چیز تو راہ ہی ہے جو اس پر مطلع ہو گیا آ گے بجز چلنے کے اور رہ ہی گیا ہے جو سالک کا فعل ہے باقی رہبر نے تو اپنا کام پورا کر دیا اور ایک معنی کر پہنچا ہی دیا اور میں عرض کرتا ہوں سنئیے ایک شخص دہلی جانا چاہتا ہے نہ اس شخص کو راستہ معلوم نہ کبھی دہلی دیکھی نہ اس کا نقشہ معلوم اول تو اس کا پہنچنا ہی مشکل بفرض محال پنہچ بھی گیا مگر نقشہ نہ معلوم ہونے کی وجہ سے پہچانے گا نہیں اس لئے غالب یہ ہے کہ آ گے بڑھ جائے گا ـ غرضیکہ مطلوب ہاتھ نہ آئے گا ادھر رہے گا یا ادھر بڑھے گا کسی صورت سے اطمینان میسر نہ ہوگا ـ اس بے راہی کی حقیقت سے وہی خوب واقف ہو سکتا ہے کبھی راستہ نہ معلوم ہونے پر سفر کر چکا ہو کہ اس وقت کیا حالت ہوتی ہے جس کا مشاہدہ مجھ کو ایک سفر میں ہوا میں اسٹیشن سہارن پور سے لکھنو جانے کیلئے سوار ہوا دیکھا کہ میرے ہم وطن ایک جنٹلمین صاحب بھی اس ہی ڈبہ میں بیٹھے ہوئے ہیں ـ میں ان سے پہلے سے واقف تھا ـ یہ جنٹلمین صاحب بھی میرٹھ جانے والے تھے سردی کا زمانہ لحاف بچھونا ساتھ نہ تھا ـ یہ بھی جنٹلمین کے خواص میں سے ہے کہ ایسی چیزیں ساتھ نہ ہوں کورے چلتے ہیں بیک بینی دو گوش کے مصداق سردی سے بغلوں میں ہاتھ ـ جب گاڑی چھوٹ گئی تو آپس میں باتیں ہونے لگیں ـ میں نے دریافت کیا کہ کیا آپ بھی لکھنو تشریف لے جا رہے ہیں کہنے لگے کہ نہیں میں تو میرٹھ جا رہا ہوں معلوم ہوا کہ غلطی سے بجائے میرٹھ کی گاڑی کے اس میں بیٹھ گئے ـ میں نے ان ہی کے محاورہ میں کہا کہ ممکن ہے کہ آپ میرٹھ جا رہے ہوں مگر افسوس ہے کہ گاڑی لکھنو جارہی ہے یہ سن کر جوان کو پریشانی ہوئی ہے وہ احاطہ بیان سے باہر ہے اس کی دو وجہ تھیں ایک تو یہ کہ اسباب پاس نہ تھا اور سردی کا زمانہ دوسرے منزل مقصود کی وہ راہ