ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
بڑے بڑے شریر لوگ سفر کرتے ہیں ایک صاحب مجھ سے اپنا واقعہ بیان کرتے تھے کہ ایک مرتبہ میں کسی بڑے درجہ میں لکھنو جا رہا تھا ایک انگریز بھی اس میں سوار ہوا جس وقت اسٹیشن سے گاڑی چھوٹ لی چلتی چلتی گاڑی میں مجھے آ چٹپا اور گھوسم گھوسا ہونے لگا یہ شخص بھی تنومند تھے کہتے تھے کہ کبھی وہ اوپر اور میں نیچے اور کبھی میں اوپر اور وہ نیچے اور اس قدر چالاک اور شریر کہ جہاں اسٹیشن آیا چپکے سے سیدھا ایک طرف جا بیٹھے جس سے معلوم ہوتا تھا کہ کچھ نہیں جانتا اور جہاں اسٹیشن سے گاڑی چلی اور پھر آ چٹپا اور پھر گھوسم گھوسا ہونے لگا شاید اس روز سے ان درجوں میں بیٹھنے سے میں نے توبہ کر لی ہو گی ـ ملفوظ 371: ایک انگریز کے ساتھ سفر کا واقعہ فرمایا کہ مجھ کو بھی بعض اوقات اتفاق سفر میں ہوا ہے انگریزوں کے ساتھ سفر کرنے کا ـ مگر کبھی کوئی شریر نہیں ملا ـ ایک مرتبہ میں کلکتہ سے ایک دوست کے اصرار سے سکنڈ میں سوار ہوا ایک انگریز آیا جو ریلوے کا افسر تھا اسکو اوپر کا تختہ ملا کہنے لگا کہ ہم کو نیچے کے تختہ پر تھوڑی سی جگہ کھڑکی کی طرف آپ دیدیں ہم کو بار بار ریلوے کے انتظام کے لیے باہر جانا آنا پڑتا ہے میں نے کہا کہ بہت اچھا ہمارا کوئی حرج نہیں آپ بیٹھ جائیں وہ بیٹھ گیا ـ جب کھانے کا وقت آیا میں نے اس دوست کے ذریعہ سے دریافت کیا کہ آپ کھانا کھائیں گے کہا کہ مجھ کو کیا عذر ہے ـ ہم نے کھانا بازار سے خریدا تھا اس میں کچھ کھانا پتوں پر بھی تھا ہم نے اس کو برتن تو دیئے نہیں کہ کون دھوتا پھرے گا پتوں پر ہی رکھ کر دیدیا اس نے بڑی خوشی سے لیکر کھا لیا ـ ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت برتن میں کھانا کیوں نہیں دیا فرمایا حق جوار ادا کیا ـ پڑوسی تھا حق احترام ادا نہیں کیا اسلئے کہ اسلام سے محروم تھا اسٹیشن بردوان پر آ کر اتر گیا بہت ہی شکریہ ادا کیا کہ آپ کو بہت تکلیف ہوا ہماری وجہ سے اور ہم کو آپ کی وجہ سے بہت آرام ملا ـ ڈاکٹر صاحب نے عرض کیا کہ اگر حضرت برتن میں کھانا دیدیتے تو اور زیادہ شکریہ ادا کرتا فرمایا کہ یہ بھی تو ممکن تھا کہ نہ کرتا ـ برتن میں کھانا دینے سے اپنے کو بڑا سمجھ جاتا کہ ہمارا احترام کیا گیا پھر شکریہ کی ضرورت ہی کیا محسوس ہوتی