ملفوظات حکیم الامت جلد 1 - یونیکوڈ |
مفلوظ 119: سورہ یٰس کی فضیلت پر ایک شبہ کا جواب ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت ایک مرتبہ جو شخص سورہ یسین شریف پڑھے اس کو سات قرآن شریف پڑھنے کا ثواب ملتا ہے فرمایا کہ سات نہیں دس کا ثواب ملتا ہے ـ عرض کیا کہ مجھ کو سات ہی یاد تھا مگر عرض کرنے سے غرض یہ ہے کہ ایک شخص نے تو صرف سورہ یسین شریف پڑھی اور ایک شخص نے دس قرآن شریف پڑھے تو کیا اس کا اور اس کا ثواب برابر ہو گا جواب میں فرمایا کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ( یسین شریف پڑھنے سے ) اجر تو دس ہی قرآن شریف پڑھنے کا ملے گا مگر وہ انوار میسر نہ ہوں گے جو کامل دس قرآن پڑھنے سے ہونگے اور صاحب غیب کی کس کو خبر ہے انا عند ظن عبدی بی کیا کچھ عطا فرما دیں کوئی ان چیزوں میں ضابطہ تھوڑا ہی ہے ـ ملفوظ 120 : حدیث '' العی من الایمان ،، کا مطلب کلام بضرورت ہونا چاہئے ایک اہل علم کی طرف سے مخاطب ہو کر فرمایا ! کہ صبح آپکے پرچہ کا جواب دے چکا ہوں اس کر زبانی بھی سمجھ لیجئے گا حدیث میں عی فی البیان کے ایمان میں سے ہونے کا ذکر فرمایا گیا ہے اصل یہ ہے کہ مقصود کے بیان میں تو روانی ہوتی ہے اور غیر مقصود کے بیان میں انقباض مثلا انسان کسی اور طرف متوجہ ہونے کی حالت میں کلام کرتا ہے تو اس کے کلام میں روانی نہیں ہوتی بس اہل اللہ پر چونکہ خوف آخرت کا غلبہ ہوتا ہے اور ہر وقت اس کا دھیان رہتا ہے لہٰذا ان کے کلام میں دلبستگی ہوتی ہے خوف آخرت کے غلبہ سے بیان کی روانی جاتی رہتی ہے جیسے ضروری کلام میں جو کہ مقصود ہوتا ہے آدمی انشراح اور بسط سے بولتا ہے اور روانی ہوتی ہے اور غیر مقصود یا فضول کلام میں روک روک کر بستگی کے ساتھ بولتا ہے ایسے ہی غلبہ خوف آخرت سے بضرورت ہی بولتا ہے تو خواہ مخواہ اس کے عام کلاموں میں رکاوٹ ہوتی ہے اور اس کی محسوس مثال یہ ہے کہ : کسی ایسے شخص سے جسے زور کا پیشاب لگا ہو مثناۃ بالتکریر کی تقریر کرائی جائے تو ہر گز روانی