تصریحات کا احاطہ مشکل ہے۔ اس کے لئے مرزابشیراحمد کی کتاب کلمتہ الفصل کا مطالعہ کافی ہوگا۔
مسلمانوں کو کافر سمجھنے کی بنیاد پر مستند قادیانی جماعت نے ان پر کفار کے تمام فقہی احکام جاری کئے۔ چنانچہ قادیانیوں کو ممانعت ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ شادی بیاہ کے تعلقات رکھیں۔ مرزابشیرالدین محمود نے ایک تقریر میں فرمایا: ’’حضرت مسیح موعود کا حکم اور زبردست حکم ہے کہ کوئی احمدی غیراحمدی کو اپنی لڑکی نہ دے۔ اس کی تعمیل کرنا بھی ہر ایک احمدی کا فرض ہے۔‘‘ (برکات خلافت ص۷۵)
اور انوار خلافت میں فرماتے ہیں: ’’اور اب (مرزاغلام احمد قادیانی) سے ایک شخص نے باربار پوچھا اور کئی قسم کی مجبوریوں کو پیش کیا۔ مگر اپ نے اس کو یہی فرمایا کہ لڑکی کو بٹھائے رکھو۔ لیکن غیراحمدیوں میں نہ دو۔ آپ کی وفات کے بعد اس نے لڑکی غیراحمدیوں کو دے دی تو حضرت خلیفہ اوّل حکیم نورالدین نے اس کو احمدیوں کی امامت سے ہٹادیا اور جماعت سے خارج کردیا اور اپنی خلافت کے چھ سالوں میں اس کی توبہ قبول نہ کی۔ باوجودیکہ وہ باربار توبہ کرتا رہا۔‘‘
(انوار خلافت ص۹۳،۹۴)
ایک جگہ اس حکم کی مزید تفصیل کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’غیراحمدیوں کی ہمارے مقابلہ میں وہی حیثیت ہے۔ جو قرآن حکیم ایک ایک مؤمن کے مقابلہ میں اہل کتاب کی قرار دے کر یہ تعلیم دیتا ہے کہ ایک مؤمن اہل کتاب عورت کو بیاہ لاسکتا ہے۔ مگر مؤمنہ عورت کو اہل کتاب سے نہیں بیاہ سکتا۔ اسی طرح ایک احمدی غیراحمدی عورت کو اپنے حبالۂ عقد میں لاسکتا ہے۔ مگر احمدی عورت شریعت اسلام کے مطابق غیراحمدی کے نکاح میں نہیں دی جاسکتی۔ حضور (مرزاقادیانی) فرماتے ہیں غیراحمدی کی لڑکی لے لینے میں حرج نہیں ہے۔ کیونکہ اہل کتاب عورتوں سے بھی نکاح جائز ہے۔ بلکہ اس میں تو فائدہ ہے کہ ایک اور انسان ہدایت پاتا ہے۔ اپنی لڑکی کسی غیراحمدی کو نہیں دینی چاہئے۔ اگر ملے تو بیشک لو۔ لینے میں حرج نہیں۔ دینے میں گناہ ہے۔‘‘ (الحکم مورخہ ۱۴؍اپریل ۱۹۰۸ئ)
اسی طرح سے غیراحمدی کے پیچھے نماز پڑھنا ان کے نزدیک درست نہیں۔ خود مرزاقادیانی نے اربعین کے حاشیہ میں لکھا ہے: ’’اس کلام الٰہی سے ظاہر ہے کہ تکفیر کرنے والے اور تکذیب کی راہ اختیار کرنے والے ہلاک شدہ قوم ہے۔ اس لئے وہ اس لائق نہیں کہ میری جماعت میں سے کوئی شخص ان کے پیچھے نماز پڑھے۔ کیا زندہ مردے کے پیچھے نماز پڑھ سکتا ہے؟ پس یاد رکھو جیسا کہ خدا نے مجھے اطلاع دی ہے۔ تمہارے پر حرام ہے… اور قطعی حرام ہے کہ مکفر